Monday 9 March 2020

یہ دل ہے غم کی نمو کے لیے مثالی جگہ

بھرا ہوا تھا میں خود سے، نہیں تھی خالی جگہ
پھر اس نے آ کے ہٹایا ذرا، بنا لی جگہ
تُو اس کے دل میں جگہ چاہتا ہے یار، جو شخص
کسی کو دیتا نہیں اپنے ساتھ والی جگہ
شجر کو عشق ہوا، آسمانی بجلی سے
پھر ایک شب وہ ملے، دیکھ ادھر، وہ کالی جگہ
گھٹن تھی، روح کو کافی نہیں تھا ایک بدن
سو ایک اور بدن جوڑ کر بڑھا لی جگہ
میں سوچتا ہوں، پتہ دوں تِری جگہ کا انہیں
جو سوچتے ہیں کہ جنت ہے اک خیالی جگہ
کچھ ایسی بھیڑ تھی مجھ میں مِری جگہ نہ بچی
تُو دیکھ پھر بھی تِرے واسطے بچا لی جگہ
جنوں کی خاک، اداسی کی دھوپ، ہجر کا نم
یہ دل ہے غم کی نمو کے لیے مثالی جگہ
جگہ نہیں تھی نئے خواب کے لیے بالکل
سو نم نکال کر آنکھوں سے کچھ نکالی جگہ
مِرا زمیں پہ یہ پہلا سفر نہیں ہے، عمیر
کہ ہر جگہ مجھے لگتی ہے دیکھی بھالی جگہ

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment