عورت مارچ پہ ایک نظم
سنو، بنتِ حوا
میں آدم کا بیٹا ہوں
آؤ، تسلی سے نمٹائیں جھگڑا
یہ حوا کی عزت کا ہوّا بنا کر دکھایا گیا ہے
مجھے تم سے ناحق لڑایا گیا ہے
کہ مرد اور عورت ہی فطرت کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
اور دونوں ہی لازم ہیں، دونوں ضروری
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
مجھے یہ خبر ہے
کہ مرد اور عورت محبت کے سکے کے دو رخ ہیں
اور دونوں رخ ہیں ضروری
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
تم اور میں بہت دیر سے ہم سفر ہیں
تم اور میں اکٹھے ہی جنت کے گھر سے نکالے گئے تھے
اور اس خاکداں میں اچھالے گئے تھے
چلو میں نے مانا کہ شہرِ ہوس میں ہیں کافی درندے
جنہوں نے سدا ابن آدم کی شہرت کو پامال رکھا
مگر وہ درندے تو گنتی کے ہیں
انگنت مرد وہ ہیں جنہوں نے تمہیں شان و تکریم بخشی
کبھی باپ بن کر، کبھی بھائی بن کر، کبھی بیٹا بن کر
وہی باپ، جس نے تمہارے لیے اپنی جاں بیچ کر بھی کھلونے خریدے
وہی بھائی، جس نے تمہارے دوپٹے کو قرآن کی طرح پاکیزہ جانا
وہی بیٹا، جس نے ہمیشہ تمہارے ہی پیروں تلے اپنی جنت تلاشی
یہ سب مرد ہیں، اور تمہارے محافظ
گلی میں اگر اک درندے نے تم پر کسا کوئی جملہ
کئی اجنبی مرد بھی تب تمہاری حفاظت کو آئے
کوئی مرد تیزاب گردی کو آیا تو کتنے ہی مردوں نے تم کو بچایا
سنو بنت حوا
بہن بھی ہو، بیٹی بھی ہو، ماں بھی ہو تم
مِرے سارے دردوں کا درماں بھی ہو تم
مگر یہ بھی سچ ہے
تمہارے لیے میں شریک حیات و شریک سفر ہوں
شریکِ غمِ جاں، شریکِ شبِ غم، شریکِ سحر ہوں
تمہارا ہر اک اشک ہے میرا آنسو
تمہاری ہنسی میری اپنی ہنسی ہے
چلو صلح کر لیں
چلو اپنے بچوں کی آئندہ نسلوں کی خاطر
محبت کی آئندہ فصلوں کی خاطر
جھگڑنا کریں ختم، اور صلح کریں
چلیں آج شانہ بہ شانہ نئی زندگی کے نئے مارچ میں ہم
کہ جس میں چلے گی برابر برابر
تمہاری بھی مرضی
ہماری بھی مرضی
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment