Wednesday, 4 March 2020

ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں

ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں
تِری زلف کی گم شدہ وادیاں ہیں
زمانہ بھی کیا رونقوں کی جگہ ہے
کہیں رونا دھونا، کہیں شادیاں ہیں
تِری کاکلیں ہی نہیں سبز پریاں
مِری آرزوئیں بھی شہزادیاں ہیں
بڑی شے ہے وابستگی دو دلوں کی
یہ پابندیاں ہی تو آزادیاں ہیں
جہاں قدر ہے کچھ نہ کچھ آدمی کی
وہ کیا قابلِ قدر آبادیاں ہیں
یکایک نہ دل پھینکنا آنکھ والو
یہ سب آنکھ کی فتنہ ایجادیاں ہیں
غریبوں سے کیا کام آسائشوں کا
وہ اونچے گھرانوں کی شہزادیاں ہیں
عدم صورتوں کی چمک پر نہ جانا
یہ سب آنکھ کی فتنہ ایجادیاں ہیں
جہاں بھی عدم کوئی دلبر مکیں ہے
وہاں کتنی گنجان آبادیاں ہیں

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment