پہنچی ہے کس طرح مِرے لب تک، نہیں پتہ
وہ بات جس کا خود مجھے اب تک نہیں پتہ
اچھا، میں ہاتھ اٹھاؤں، بتاؤں، فلاں، فلاں
یعنی خدا کو میری طلب تک نہیں پتہ؟
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
کب سے ہے، کس قدر ہے، یہ کیسے پتہ چلے
مجھ کو تو اس جنوں کا سبب تک نہیں پتہ
جس کے سبب میں اہلِ محبت کے ساتھ ہوں
وہ شخص میرے ساتھ ہے کب تک، نہیں پتہ
میں آج کامیاب ہوں، خوش باش ہوں، مگر
کیا فائدہ ہے یار! اسے جب تک نہیں پتہ
ہم کیا خوشی غمی کی محافل میں ہوں شریک
ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment