Monday, 9 March 2020

یعنی خدا کو میری طلب تک نہیں پتہ

پہنچی ہے کس طرح مِرے لب تک، نہیں پتہ
وہ بات جس کا خود مجھے اب تک نہیں پتہ
اچھا، میں ہاتھ اٹھاؤں، بتاؤں، فلاں، فلاں
یعنی خدا کو میری طلب تک نہیں پتہ؟
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک، نہیں پتہ
کب سے ہے، کس قدر ہے، یہ کیسے پتہ چلے
مجھ کو تو اس جنوں کا سبب تک نہیں پتہ
جس کے سبب میں اہلِ محبت کے ساتھ ہوں
وہ شخص میرے ساتھ ہے کب تک، نہیں پتہ
میں آج کامیاب ہوں، خوش باش ہوں، مگر
کیا فائدہ ہے یار! اسے جب تک نہیں پتہ
ہم کیا خوشی غمی کی محافل میں ہوں شریک
ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment