ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
اور ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے
تم نے احسان کیا تھا سو جتایا تم نے
جو محبت ہو جتانی تو نہیں ہوتی ہے
دوستو! سچ کہو کب دل کو قرار آئے گا
دل میں جو آگ لگی ہے وہ لگی رہنے دے
یار! ہر آگ بجھانی تو نہیں ہوتی ہے
جب بھی ملتے ہیں چٹک اٹھتے ہیں کلیوں کی طرح
دوستی ہو تو پرانی تو نہیں ہوتی ہے
بارہا اس کی گلی سے یہ گزر کر سوچا
ہر گلی چھوڑ کے جانی تو نہیں ہوتی ہے
موج ہوتی ہے کہیں اور بھنور ہوتے ہیں
صرف دریا میں روانی تو نہیں ہوتی ہے
شائبہ جس میں حقیقت کا نہیں ہو اجمل
وہ کہانی بھی کہانی تو نہیں ہوتی ہے
اجمل سراج
No comments:
Post a Comment