Wednesday, 4 March 2020

ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے

ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
اور ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے
تم نے احسان کیا تھا سو جتایا تم نے
جو محبت ہو جتانی تو نہیں ہوتی ہے
دوستو! سچ کہو کب دل کو قرار آئے گا
ہر گھڑی آس بندھانی تو نہیں ہوتی ہے
دل میں جو آگ لگی ہے وہ لگی رہنے دے
یار! ہر آگ بجھانی تو نہیں ہوتی ہے
جب بھی ملتے ہیں چٹک اٹھتے ہیں کلیوں کی طرح
دوستی ہو تو پرانی تو نہیں ہوتی ہے
بارہا اس کی گلی سے یہ گزر کر سوچا
ہر گلی چھوڑ کے جانی تو نہیں ہوتی ہے
موج ہوتی ہے کہیں اور بھنور ہوتے ہیں
صرف دریا میں روانی تو نہیں ہوتی ہے
شائبہ جس میں حقیقت کا نہیں ہو اجمل
وہ کہانی بھی کہانی تو نہیں ہوتی ہے

اجمل سراج

No comments:

Post a Comment