شربتِ ضبط آئے راس مجھے
پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے
تم سے شکوے کا اب دماغ کہاں
کتنا رکھتے ہو بد حواس مجھے
تیرے دل کا مکیں نہیں، نہ سہی
اب مجھے تم سے کوئی آس نہیں
اب نہیں ہونا نذرِ یاس مجھے
صاف رکھتا ہوں دل کا آئینہ
دل میں رکھتے ہیں دل شناس مجھے
اوڑھ لی آپ نے ردائے گریز
اضطرابی ملا لباس مجھے
کیسے اردو نہ تجھ کو سمجھوں میں
کھینچتی ہے تِری مٹھاس مجھے
اب اداسی بھی ہو گئی بے سود
خوش ہیں وہ دیکھ کر اداس مجھے
اب اداسی بھی ہو گئی بے سود
دیکھ لیتے ہیں وہ اداس مجھے
محنتانہ بھی جو نہ دیں راغبؔ
کیوں ہے بخشش کی ان سے آس مجھے
افتخار راغب
No comments:
Post a Comment