روح بدن میں ہے طپاں جی کو ہے کل سے بیکلی
جلد خبر لو ہم دِلو! جاں فراق میں چلی
بادِ صبا جو صبحدم باغ میں ناز سے چلی
نخل نہال ہو گئے، پھُول گئی کلی کلی
تارکشی دوپٹہ تُو اوڑھے کرن جو ٹانک کر
قصہ کیا جو ابر میں اس گلِ تر نے سیر کا
سبزے نے دور تک کِیا دشت میں فرش مخملی
بہکے زمینِ شعر میں پاؤں امانت اپنا کیا
جب ہوئی لغزش اک ذرا نکلا زباں سے یاعلی
امانت لکھنوی
No comments:
Post a Comment