Monday, 9 March 2020

دھوپ کی عمر زیادہ ہے سفر مجھ سے کم

دھوپ کی عمر زیادہ ہے، سفر مجھ سے کم
اس لیے زرد تو ہوتی ہے مگر مجھ سے کم
رائگاں شخص کی صحبت سے برا کچھ بھی نہیں
ہجر اپناؤ کہ اس میں ہے ضرر مجھ سے کم
میں ہوں جنگل میں اترتا ہوا ذیلی رستہ
خلقتِ شہر کا ہوتا ہے گزر مجھ سے کم
ہر خزاں ایسے مِرے زخم ہرے کرتی ہے
سبز لگتے ہیں بہاروں میں شجر مجھ سے کم
تُو نہ ہو کر بھی یہاں اتنا رہا ہے مِرے یار
تجھ سے مانوس زیادہ ہے یہ گھر، مجھ سے کم
کوئی ٹھیکہ ہو اداسی کا، مجھے ملتا ہے
کوئی بھرتا ہی نہیں نرخ اِدھر مجھ سے کم
وہ فقط روتا ہے، ہنستا نہیں تادیر، عمیر
میرے بیٹے میں ہے وحشت کا اثر مجھ سے کم

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment