پھر اٹھایا جاؤں گا مٹی میں مِل جانے کے بعد
گرچہ ہوں سہما ہوا بنیاد ہل جانے کے بعد
آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے
آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دل جانے کے بعد
سخت جانی کی بدولت اب بھی ہم ہیں تازہ دَم
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے
گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد
اس طرح حیران ہیں سب دیکھ کر راغب مجھے
جیسے کوئی آ گیا ہو مستقل جانے کے بعد
افتخار راغب
No comments:
Post a Comment