سائلانہ ان کے در پر جب مِرا جانا ہوا
'ہنس کے بولے 'شاہ صاحب کس طرف آنا ہوا
ٹوٹے بت،۔ مسجد بنی،۔ مسمار بت خانہ ہوا
جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا
ہر جگہ موجود سمجھا، اس کو سجدہ کر لیا
بیشتر بلبل سے تھا سر میں مِرے شورِ جنوں
فصلِ گل آنے نہ پائی تھی کہ دیوانہ ہوا
یوسفِ مصرِ محبت کیسا ارزاں بک گیا
نقدِ دل قیمت ہوئی، اک بوسہ بیعانہ ہوا
مژدہ باد اے بادہ خوارو! دورِ واعظ ہو چکا
مدرسے کھولے گئے، تعمیر مے خانہ ہوا
رند ہوں روزِ ازل سے ہوں میں وارفتہ مزاج
اس لیے طورِ سخن بھی اپنا رِندانہ ہوا
رند لکھنوی
No comments:
Post a Comment