جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیونکر بنے
جب اٹھے یہ غم کہ دل کا آئینہ پتھر بنے
اب جو وہ بنوائیں گہنا یاد رکھنا گُل فروش
پھول بچ جائیں تو میری قبر کی چادر بنے
بعد آرائش بلائیں کون لے گا میرے بعد
آرزو مند شہادت کی وصیت سب سے ہے
نام کھودا جائے میرا جب کوئی خنجر بنے
خفتگانِ خاک چونک اٹھے چلے کچھ ایسی چال
آج تو اے میری جاں! تم فتنۂ محشر بنے
چاہتے ہو تم رہوں مر کر بھی میں قدموں سے دور
'کہتے ہو 'قبر اس کی میرے کوچہ سے باہر بنے
دامنِ قاتل کے دھبوں کی گواہی ہو ضرور
گر ہمارے خون کا اے دوستو! محضر بنے
قبر کا کونا ہو مسکن، دَم نکل جائے رشیدؔ
خانۂ تن گر چکے جلدی کہ اپنا گھر بنے
رشید لکھنوی
No comments:
Post a Comment