Monday, 31 August 2020
اندھیرا کروٹ بدل رہا ہے
رفو کریں گے گماں کا دامن ہر ایک شک کو یقیں لکھیں گے
دل پہ یادوں کی ہے قائم حکمرانی ان دنوں
کوئی موسم بھی سزاوارِ محبت نہیں اب
جہاز اس کے گناہوں کا بوجھ اٹھا نہ سکا
زمیں پر آسمانوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے
پیش کی جائے گی پیشانی، ندامت کے لیے
کسی دن میرے گھر وہ مہرباں آیا تو کیا ہو گا
آپ کے وعدہ فردا کو دعا دیتے ہیں
عجیب لوگ ہیں پہلے مجھے پکارتے ہیں
کاٹ کر پاؤں عجب طعنہ دیا جاتا ہے
اب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے
گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا
زباں بندی کی عادت ہو گئی ہے
زباں بندی کی عادت ہو گئی ہے
ہمیں زنداں سے الفت ہو گئی ہے
وہ جب سے چھوڑ کر بستی گیا ہے
ہر اک برکت ہی رخصت ہو گئی ہے
خدائے صبح و رب روز روشن
اندھیروں کی حکومت ہو گئی ہے
جلتی رہتی ہے جو مجھ میں کسی نروان کی آگ
دیکھو تو روشنی کے سوا اور کچھ بھی ہے
اتنا یقین رکھ کہ گماں باقی رہے
تمہارے ہجر کا دریا عبور کرتے ہوئے
کوئی وجد ہے نہ دھمال ہے ترے عشق میں
کرے گا کون یہاں آئینے ملال ترا
مسجد و مندر و بازار ہیں خالی خالی
مسجد و مندر و بازار ہیں خالی خالی
گرجا گھر خالی ہیں، دربار ہیں خالی خالی
فصل گل لوٹ لی ہے فصل کرونائی نے
باغباں عنقا ہیں، گلزار ہیں خالی خالی
شہر میں کوئی نہیں ہاتھ ملانے والا
لذت وصل سے اب پیار ہیں خالی خالی
جزیروں میں انسانی چہرے اگنے لگے
غلاموں کو میں اپنی خوابیدہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
بائیو بائیو مجھ سے باتیں کرو
میرے راکھ راکھ گھر کو دیکھو
جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
دیواریں اتنی بھی اونچی نہ کرو
محرومی
ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے
عکس روئے مصطفٰی سے ایسی زیبائی ملی
اے کاش موت مجھ کو مدینہ نصیب ہو
جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق
ہوئے ایسے بہ دل ترے شیفتہ ہم دل و جاں کو ہمیشہ نثار کیا
جنگلوں میں گھنی جھاڑیوں سے نکلتی ہوئی
وسائل؛ سکھ کے موسم کی نظموں سے
نادم ہیں قافلے ترے
نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ
سوئے دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا
ہر ذرے کی نمود میں اعلان جنگ ہے
Sunday, 30 August 2020
چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے
اداس ہوں دل دکھا ہوا ہے
درد جب شعر میں لاتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
کنبے کو ساتھ لے کے مدینے سے چل پڑے
پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں
دل سے خوشی قریب ہے دیکھو نہ چھوڑ جاؤ تم
نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے
نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے
خوشنما دریچوں سے خوشنما سااترا ہے
طلسمی پرندوں کی رنگ چھوڑتی باتیں
پھول پر کوئی بوسہ اک صبا سا ااترا ہے
ہم زمیں کے باسی اور چل پڑے فلک چُھونے
اس لیے خلاؤں سے فاصلہ سا اترا ہے
اسے بھی اے خدا مشہور کر دے
جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں
اب یہ معیار شہریاری ہے
تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں
ہمسفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے
رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں
گلوں سے سج گیا ہے آج لالہ زار کربلا
رات گئے آنکھ کے دشت میں
اک صف چراغاں میں
عجب اک معرکہ تها وہ
سرد لہر چپکے سے
نہیں مکرنا وہ میرا رب تھا
کشتی والو رکو
آؤ تتلی کے گھر چلتے ہیں
ذرا سی دیر میں
میں نے وہ نظم لکھی ہے کہ خدا جانتا ہے
میں نے وہ نظم لکھی ہے کہ خدا جانتا ہے
اس کا ہر لفظ خدائی کا پتا جانتا ہے
میری آنکھوں میں یہ تصویر ذرا غور سے دیکھ
مجھ کو اس شخص سے ملنا ہے، بتا جانتا ہے
میں بھی زنجیر نہیں ہوتا کسی وحشت سے
وہ بھی تنہائی سے بچنے کی دعا جانتا ہے
آ کر عروج کیسے گرا ہے زوال پر
آئنہ ہے خیال کی حیرت
کربلا کون تھے جو ظلم کی شمشیر کے ساتھ
یہ فخر کم تو نہیں ارض کربلا کے لئے
بادہ خانے کی روایت کو نبھانا چاہیے
دل مرا درد کی راجدھانی رہا
Saturday, 29 August 2020
تم دکھی ہو
دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
ایک چہرہ بدلنے والے کے نام
ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے
نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے
کیا خبر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ آئے
کوئی تم سے سیکھے یہ آنکھیں بدلنا
آخر بگڑ گئے مرے سب کام ہونے تک
عجب نہیں ہے معالج شفا سے مر جائیں
عیاں ہوئی بڑی شدت سے بے بسی مجھ پر
ہوائے شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے
رشید حسرت بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین میں لفظوں سے پھول کھلانے والا شاعر
بلاشبہ رشید حسرت بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین میں لفظوں سے پھول کھلانے والے شاعر ہیں۔ آپ کا اصل نام عبدالرشید ہے اور آپ شاعری میں حسرت کا تخلص اپنائے ہوئے ہیں۔ آپ بلاشبہ بلوچستان اور خاص کر وادئ کوئٹہ، چلتن اور ہزار گنجی کی سرزمین میں اردو شاعری کے حوالے سے ایک معتبر نام ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ادبی حلقوں میں رشید حسرت شاعری کے حوالے سے اپنی ایک الگ و معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ رشید حسرت کا تعلق مِٹھڑی، ضلع کچھّی، بلوچستان سے ہے۔ آپ ۱۹۸۱ سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں روزگار کے سلسلے میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔۱۹۸۱ میں آپ نے عملی زندگی کی شروعات کیں، ۱۹۸۷ تک بطور کلرک ملازمت اختیار کی، دسمبر ۱۹۸۷ میں وہاں سے استعفی دے کر آپ نے سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں پہلے کلرک پھر اسٹینو گرافر کے طور فرائض انجام دیئے۔ اس دوران آپ نے حصول علم کو جاری رکھا اور اردو میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیمی قابلیت کا میدان سر کرنے کے بعد ستمبر ۱۹۹۵میں آپ کا تقرر بطور لیکچرار ہوا، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے ملازمت کے لیے اردو ادب کی درس و تدریس کا ہی انتخاب کیا جو ان کی اس شعبے سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت آپ کوئٹہ کے ایک ڈگری کالج میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے مشاغل میں بھی شعر و سخن ہی سر فہرست ہے۔ ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۳ تک یہاں جب کوئٹہ میں باقاعدہ مشاعروں اور شعری نشستوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا تب تو کل بلوچستان، کل پاکستان مشاعروں میں شرکت کے مواقع بھی میسر آتے رہے۔ رشید حسرت کو خاص مواقع پر ٹی وی مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی مل چکا ہے جہاں وہ ملک کے دیگر شعراء کے ساتھ اپنا کلام سنانے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ بلاشبہ ان کا کلام بہت پختتگی کا حامل ہے جس میں وہ معاشرے کے حساس معاملات پر اپنے خیالات کا اطہار کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کلام بلاگ کی زینت بنا ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ بھی دیکھنے میں آۓ گا، مجھے یقین ہے کہ قارئین کرام ان کی شاعری سے یقیناً لطف اندوز ہوں گے۔
اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں
راحت وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر
دھیان کی موج کو پھر آئنہ سیما کر لیں
کی شب حشر مری شام جوانی تم نے
نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
اناؤنسر؛ سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے، بولو
شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
سروں پر سے ردائیں مانگتی ہیں
روکھی روٹی کما کے لایا ہوں
ذرا سی باپ مرا کیا زمین چھوڑ گیا
آسمان وقت پر روشن ستارا آپ کا
کوئی کسی کا دیوانہ نہ بنے تیرِ نظر کا نشانہ نہ بنے
او نیند نہ مجھ کو آئے دل میرا گھبرائے
کوئی آ جائے کوئی آ جائے بگڑی تقدیر بنا جائے
چاہت کی لو کو مدھم کر دیتا ہے
رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے
یہی تو ہے جو خیالوں سے جا نہیں رہا ہے
دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا
جو صورت گیر حسن و عشق کی دنیا کہیں ہوتی
محفل میں ذرا ہم سے وہ آنکھیں تو ملائیں
وہ کیا جانے کہ زخم دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے
آپ کے در پہ بہت دیر سے بیٹھے ہوئے ہیں
ہاتھ اس شخص کو ہم سے بھی تو دھونے پڑے ہیں
پیروں میں ہیں زنجیریں، ہیں لب پہ مرے پہرے
شرار و برق سے ہم تو نئی بنیاد رکھیں گے
محبت سے خالی دنوں میں
محبت سے کوئی جگہ خالی نہیں
Friday, 28 August 2020
زندگی نقص زندگی تو نہیں
پتھر دل انسان بہت ہیں
وہ ماتم کر رہے ہیں زندگی کا
یہاں تنگئ قفس ہے وہاں فکر آشیانہ
تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
دل نہ دیوانہ ہو یہ اس کو گوارا بھی نہیں
کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے
پہاڑ لوگ تھے غداریوں پہ وارے گئے
بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں
جلا کے رکھتے ہیں لاشوں کو سرد خانے میں
ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے
کیا مجھے اور بھی کچھ بکھرا ہوا چاہتے ہو
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے
زندہ رہنا تھا سو جاں نذر اجل کر آیا
طوائف male
تیرا جب ذکر تیری بات ہو گی
اماں جانی تو کیا جانے
زہر ٹپکاتی عورت
عشق مشکل ہے میاں کرنا ذرا دھیان کے ساتھ
پھٹی مشکیں لئے دن رات دریا دیکھنے والے
شامل مرے غبار میں صحرا اگر نہ ہو
صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
دل دیا ہے ہم نے بھی وہ ماہ کامل دیکھ کر
دل دیا ہے ہم نے بھی وہ ماہِ کامل دیکھ کر
زرد ہو جاتی ہے جس کو شمعِ محفل دیکھ کر
تیرے عارض پہ یہ نقطہ بھی ہے کتنا انتخاب
ہو گیا روشن تِرے رخسار کا تِل دیکھ کر
آئینے نے کر دیا یکتائی کا دعویٰ غلط
نقشِ حیرت بن گئے اپنا مقابل دیکھ کر
کچھ اشارے وہ سر بزم جو کر جاتے ہیں
کچھ اشارے وہ سرِ بزم جو کر جاتے ہیں
ناوکِ ناز کلیجے میں اتر جاتے ہیں
اہلِ دل راہِ عدم سے بھی گزر جاتے ہیں
نام لیوا تِرے بے خوف و خطر جاتے ہیں
سفرِ زیست ہوا ختم نہ سوچا، لیکن
ہم کو جانا ہے کہاں اور کدھر جاتے ہیں
کثرت وحدانیت میں حسن کی تنویر دیکھ
کثرت وحدانیت میں حسن کی تنویر دیکھ
دیدۂ حق بِیں سے رنگِ عالمِ تصویر دیکھ
اس قدر کھنچنا نہیں اچھا بتِ بے پیر دیکھ
پیار کی نظروں سے سُوئے عاشقِ دلگیر
کام بن بن کر بگڑ جاتے ہیں لاکھوں رات دن
کس قدر ہے مجھ سے برگشتہ مِری تقدیر دیکھ
گمان و شک کے تلاطم اتار پار مجھے
اک زمانے سے نہیں فرصت عشق خوباں
سایہ ہے جہاں پھولوں کا وہ در نہیں ملتے
باز آؤ بتو دل کا ستانا نہیں اچھا
نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں
گھر کو جنت نما بنائے وے ہیں
دشت بلا میں ابر نظر آ گیا تو کیا
کبھی عذاب طلب ہوں کبھی امان تلاش
کوئی گفتگو ہو لب پر تیرا نام آ گیا ہے
جو لمحے تھے سکوں کے سب مدینے میں گزار آئے
آئی پھر یاد مدینے کی رلانے کے لیے
اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے
نہ کوئی دن نہ کوئی رات انتظار کی ہے
آگ برستی ہے اب اس کی چھاؤں سے
اک ملاقات سر راہ سے پہلے مرنا
قسم خدا کی یہی خوف اب ستائے مجھے
سربلندی تو صلیبوں کا مقدر ہے یہاں
عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے
Thursday, 27 August 2020
ذہن زندہ ہے مگر اپنے سوالات کے ساتھ
خواب جلنے کی بو
موت خوبصورت ہو جاتی ہے
شاعری کی شرع میں
ایک دن کی لاش
اچانک ایسے جل تھل ہو گئے کیوں
کسی طرح تو در دل پہ دستکیں دیتے
سارے چہرے بھول چکے ہیں ایک وہ چہرہ یاد رہا
ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
پس پردہ تجھے ہر بزم میں شامل سمجھتے ہیں
جلوہ فرماں دیر تک دلبر رہا
نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی
کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے
جھیل بھی کھو گئی شکارا بھی
وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے
قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
قلزمِ الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا، برہم ہوا
تھامنا مشکل دلِ مضطر کو شامِ غم ہوا
یاد آتے ہی کسی کی، حشر کا عالم ہوا
کیا بتائیں کس طرح گزری شبِ وعدہ مِری
منتظر آنکھیں رہیں، دل کا عجب عالم ہوا
وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں
وہ جھنکار پیدا ہے تارِ نفس میں
کہ ہے نغمہ نغمہ مِری دسترس میں
تصور بہاروں میں ڈوبا ہوا ہے
چمن کا مزہ مل رہا ہے قفس میں
گلوں میں یہ سرگوشیاں کس لیے ہیں
ابھی اور رہنا پڑے گا قفس میں؟
زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
زلف جاناں پہ طبیعت مِری لہرائی ہے
سانپ کے منہ میں مجھے میری قضا لائی ہے
آج مے خانے پہ گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ایک دنیا ہے کہ پینے کو امڈ آئی ہے
زلفِ شب رنگ کا عکس یہ پیمانے میں
یا پری کوئی یہ شیشے میں اتر آئی ہے