Sunday, 29 March 2020

خطبے اذانیں اور بھجن مہنگے کر دئیے

خطبے اذانیں اور بھجن مہنگے کر دئیے ‎
سب مذہبوں نے اپنے سخن مہنگے کر دئیے ‎ 
جب سے تمہارے ہونٹوں سے تشبیہہ دی گئی ‎
ہر جوہری نے لعلِ یمن مہنگے کر دئیے ‎ 
ہم سے زیادہ ہے کوئی موقع پرست قوم؟ 
پھیلی وبا تو ہم نے کفن مہنگے کر دئیے

مجھ کو راس مت آنا زیادہ پاس مت آنا

کورونا وائرس کے تناظر میں کہی گئی ایک نظم

زیادہ پاس مت آنا

زیادہ پاس مت آنا
میں وہ تہہ خانہ ہوں جس میں
شکستہ خواہشوں کے ان گِنت آسیب بستے ہیں
جو آدھی شب تو روتے ہیں، پھر آدھی رات ہنستے ہیں
مِری تاریکیوں میں

سنو بنت حواچلو صلح کر لیں

عورت مارچ پہ ایک نظم

سنو، بنتِ حوا
میں آدم کا بیٹا ہوں 
آؤ، تسلی سے نمٹائیں جھگڑا 
یہ حوا کی عزت کا ہوّا بنا کر دکھایا گیا ہے 
مجھے تم سے ناحق لڑایا گیا ہے 
میں آدم کا بیٹا ہوں اور جانتا ہوں 

Monday, 9 March 2020

برسوں پرانا دوست ملا جیسے غیر ہو

برسوں پرانا دوست ملا، جیسے غیر ہو
"دیکھا، رکا، جھجک کے کہا "تم عمیر ہو؟
کمرے میں سگرٹوں کا دھواں اور تِری مہک
جیسے شدید دُھند میں باغوں کی سیر ہو
ملتے ہیں مشکلوں سے یہاں، ہم خیال لوگ
تیرے تمام چاہنے والوں کی خیر ہو

یعنی خدا کو میری طلب تک نہیں پتہ

پہنچی ہے کس طرح مِرے لب تک، نہیں پتہ
وہ بات جس کا خود مجھے اب تک نہیں پتہ
اچھا، میں ہاتھ اٹھاؤں، بتاؤں، فلاں، فلاں
یعنی خدا کو میری طلب تک نہیں پتہ؟
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک، نہیں پتہ

یہ دل ہے غم کی نمو کے لیے مثالی جگہ

بھرا ہوا تھا میں خود سے، نہیں تھی خالی جگہ
پھر اس نے آ کے ہٹایا ذرا، بنا لی جگہ
تُو اس کے دل میں جگہ چاہتا ہے یار، جو شخص
کسی کو دیتا نہیں اپنے ساتھ والی جگہ
شجر کو عشق ہوا، آسمانی بجلی سے
پھر ایک شب وہ ملے، دیکھ ادھر، وہ کالی جگہ

دھوپ کی عمر زیادہ ہے سفر مجھ سے کم

دھوپ کی عمر زیادہ ہے، سفر مجھ سے کم
اس لیے زرد تو ہوتی ہے مگر مجھ سے کم
رائگاں شخص کی صحبت سے برا کچھ بھی نہیں
ہجر اپناؤ کہ اس میں ہے ضرر مجھ سے کم
میں ہوں جنگل میں اترتا ہوا ذیلی رستہ
خلقتِ شہر کا ہوتا ہے گزر مجھ سے کم

Sunday, 8 March 2020

روٹھنا مت کہ منانا نہیں آتا مجھ کو

روٹھنا مت کہ منانا نہیں آتا مجھ کو
پیار آتا ہے، جتانا نہیں آتا مجھ کو
آسماں سر پر اٹھانا نہیں آتا مجھ کو
بات بے وجہ بڑھانا نہیں آتا مجھ کو
غیر ممکن ہے مِرا جھوٹ نہ پکڑا جائے
غیر کی طرح بہانہ نہیں آتا مجھ کو

پھر اٹھایا جاؤں گا مٹی میں مل جانے کے بعد

پھر اٹھایا جاؤں گا مٹی میں مِل جانے کے بعد
گرچہ ہوں سہما ہوا بنیاد ہل جانے کے بعد
آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے
آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دل جانے کے بعد
سخت جانی کی بدولت اب بھی ہم ہیں تازہ دَم
خشک ہو جاتے ہیں ورنہ پیڑ ہل جانے کے بعد

پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے

شربتِ ضبط آئے راس مجھے
پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے
تم سے شکوے کا اب دماغ کہاں
کتنا رکھتے ہو بد حواس مجھے
تیرے دل کا مکیں نہیں، نہ سہی
رہنے دے اپنے آس پاس مجھے

Saturday, 7 March 2020

راہ وفا میں اولاً کتنے ہی ہم سفر گئے

راہِ وفا میں اولاً کتنے ہی ہم سفر گئے
آیا جو وقتِ امتحان جانے وہ سب کدھر گئے​
یادِ شباب رہ گئی،۔ عہدِ شباب اب کہاں
میرے بھی دن گزر گئے تیرے بھی دن گزر گئے
اپنوں سے اور غیروں سے کتنے ہی غم اٹھائے تھے
زخم زباں کے ہیں ہرے، زخم سناں کے بھر گئے

واقف آداب محفل بس ہمیں مانے گئے

واقفِ آدابِ محفل بس ہمِیں مانے گئے
ان کی محفل میں ہمیں شائستہ گردانے گئے
مٹتے مٹتے مٹ گئے راہِ وفا میں لوگ جو
بعد والوں میں نشانِ راہ وہ مانے گئے
کچھ نقوشِ عہدِ رفتہ خیر سے اب بھی تو ہیں
لاکھ بگڑی میری صورت پھر بھی پہچانے گئے

چلتی رہی اس کوچے میں تلوار ہمیشہ

چلتی رہی اس کوچے میں تلوار ہمیشہ
لاشے ہی نکلتے رہے دو چار ہمیشہ
ہم رند ہوئے شاہدِ مقصود سے واصل
جھگڑے میں رہے کافر و دِیندار ہمیشہ
مشتاقوں نے تیرے نہ لیا کوڑیوں کے مول
بکتا رہا یوسف سرِ بازار ہمیشہ

میں دیکھ رہا ہوں مجھے اندھا نہ سمجھنا

تو آپ کو پوشیدہ و اخفا نہ سمجھنا
میں دیکھ رہا ہوں مجھے اندھا نہ سمجھنا
کم شیرِ ژیان سے مِرا رتبہ نہ سمجھنا
کتا ہوں علی کا سگِ دنیا نہ سمجھنا
ہمراہ مِرے رہتی ہے ہر دم مددِ غیب
لاکھوں پہ ہوں بھاری مجھے تنہا نہ سمجھنا

سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا

سائلانہ ان کے در پر جب مِرا جانا ہوا
'ہنس کے بولے 'شاہ صاحب کس طرف آنا ہوا
ٹوٹے بت،۔ مسجد بنی،۔ مسمار بت خانہ ہوا
جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا
ہر جگہ موجود سمجھا، اس کو سجدہ کر لیا
خواہ مسجد، خواہ گرجا، خواہ بت خانہ ہوا

کیونکر نہ لائے رنگ گلستاں نئے نئے

کیوں کر نہ لائے رنگ گلستاں نئے نئے
گاتے ہیں راگ مرغِ خوش الحاں نئے نئے
دلبر متاعِ دل کے ہیں خواہاں نئے نئے
کرتا ہے حسن عشق کے ساماں نئے نئے
آسیبِ عشق سر سے اترتا نہیں مِرے
لکھتا ہے نقش روز پری خواں نئے نئے

پڑتی ہے آ کے جان پر آخر بلائے دل

پڑتی ہے آ کے جان پر آخر بلائے دل
یا رب کسی بشر کا کسی پر نہ آئے دل
تیرے بغیر کس کی تمنا کرے بشر
تُو آرزوئے جان ہے، تُو مدعائے دل
جو کچھ سلوک تُو نے کیے اس غریب سے
کیوں بے وفا! بتا تو، یہی تھی جزائے دل

راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے

راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
ہم کئی بار انہیں گھبرا کے پکارے ہوتے
شعلۂ حسن کو روکا ہے نقابِ رخ نے
ابھی موتی تِرے کانوں کے شرارے ہوتے
جانتے تھے کہ اتارو گے لحد میں ہم کو
میلے کپڑے ابھی تم نے نہ اتارے ہوتے

جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیونکر بنے

جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیونکر بنے
جب اٹھے یہ غم کہ دل کا آئینہ پتھر بنے
اب جو وہ بنوائیں گہنا یاد رکھنا گُل فروش
پھول بچ جائیں تو میری قبر کی چادر بنے
بعد آرائش بلائیں کون لے گا میرے بعد
یاد کرنا مجھ کو جب زلف پری پیکر بنے

آغوش میں جو جلوہ گر اک نازنیں ہوا

آغوش میں جو جلوہ گر اک نازنیں ہوا
انگشتری بنا مِرا تن، وہ نگیں ہوا
رونق فزا لحد پہ جو وہ مہ جبیں ہوا
گنبد ہماری قبر کا چرخِ بریں ہوا
کندہ جہاں میں کوئی نہ ایسا نگیں ہوا
جیسا کہ تیرا نام مِرے دل نشیں ہوا

روح بدن میں ہے طپاں جی کو ہے کل سے بےکلی​

روح بدن میں ہے طپاں جی کو ہے کل سے بیکلی​
جلد خبر لو ہم دِلو! جاں فراق میں چلی​
بادِ صبا جو صبحدم باغ میں ناز سے چلی​
نخل نہال ہو گئے، پھُول گئی کلی کلی​
تارکشی دوپٹہ تُو اوڑھے کرن جو ٹانک کر​
ہو شبِ ماہتاب میں کیا ہی صنم جھلا جھلی​

الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج

الجھا دلِ ستم زدہ زلفِ بتاں سے آج 
نازل ہوئی بلا مِرے سر پر کہاں سے آج 
دو چار رشکِ ماہ بھی ہمراہ چاہییں 
وعدہ ہے چاندنی میں کسی مہرباں سے آج 
ہنگامِ وصل رد و بدل مجھ سے ہے عبث 
نکلے گا کچھ نہ کام "نہیں" اور "ہاں" سے آج 

Wednesday, 4 March 2020

گوریوں کالیوں نے مار دیا

گوریوں کالیوں نے مار دیا
جامنوں والیوں نے مار دیا
انگ ہیں یا رکابیاں دھن کی
موہنی تھالیوں نے مار دیا
گنگناتے حسین کانوں کی
ڈولتی بالیوں نے مار دیا

ذہن گلزار ہو گیا ہو گا

ذہن گلزار ہو گیا ہو گا
باغباں یار ہو گیا ہو گا
بات، سرکار بن گئی ہو گی
کام، سرکار ہو گیا ہو گا
پھول اس زلف سے جدا ہو کر
سخت بیمار ہو گیا ہو گا

ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں

ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں
تِری زلف کی گم شدہ وادیاں ہیں
زمانہ بھی کیا رونقوں کی جگہ ہے
کہیں رونا دھونا، کہیں شادیاں ہیں
تِری کاکلیں ہی نہیں سبز پریاں
مِری آرزوئیں بھی شہزادیاں ہیں

یہ گِلہ تو مٹا دیا ہوتا

یہ گِلا تو مٹا دیا ہوتا
درد کو دل بنا دیا ہوتا
لوگ جب میرا ذکر کرتے تھے
آپ نے مسکرا دیا ہوتا
حشر کے دن تو سونے والوں کو
بندہ پرور! جگا دیا ہوتا

ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے

ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
اور ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے
تم نے احسان کیا تھا سو جتایا تم نے
جو محبت ہو جتانی تو نہیں ہوتی ہے
دوستو! سچ کہو کب دل کو قرار آئے گا
ہر گھڑی آس بندھانی تو نہیں ہوتی ہے

کسی کی قید سے آزاد ہو کے رہ گئے ہیں

کسی کی قید سے آزاد ہو کے رہ گئے ہیں
تباہ ہو گئے برباد ہو کے رہ گئے ہیں
اب اور کیا ہو تمنائے وصل کا انجام
دل و دماغ تِری یاد ہو کے رہ گئے ہیں
کہیں تو قصۂ احوال مختصر یہ ہے
ہم اپنے عشق کی روداد ہو کے رہ گئے ہیں

اک امتحان سے گزرا اک امتحان کے بعد

تمام عمر صبح کی اذان کے بعد
اک امتحان سے گزرا اک امتحان کے بعد
خدا کرے کہ کہیں اور گردشِ تقدیر
کسی کا گھر نہ اجاڑے مِرے مکان کے بعد
دَھرا ہی کیا ہے مِرے پاس نذر کرنے کو
تِرے حضور مِری جان! میری جان کے بعد

حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مر جاؤں گا

منزلیں لاکھ کٹھن آئیں گزر جاؤں گا
حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مر جاؤں گا
چل رہے تھے جو میرے ساتھ کہاں ہیں وہ لوگ
جو یہ کہتے تھے کہ رستے میں بکھر جاؤں گا
در بدر ہونے سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا
گھر مجھے راس نہ آیا تو کدھر جاؤں گا

‏شرح غم ہائے بے حساب ہوں میں

‏شرح غم ہائے بے حساب ہوں میں
لکھنے بیٹھوں تو اک کتاب ہوں میں
میری بربادیوں پہ مت جاؤ
ان نگاہوں کا انتخاب ہوں میں
خواب تھا یا شباب تھا میرا
دو سوالوں کا اِک جواب ہوں میں

یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں

یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں
شکستہ ہو کے بھی، ناقابلِ شکست ہوں میں
متاعِ درد سے دل مالا مال ہے میرا
زمانہ کیوں یہ سمجھتا ہے کہ تنگدست ہوں میں
یہ انکشاف ہوا ہی نہیں کبھی مجھ پر
خودی پرست ہوں میں یا خدا پرست ہوں میں