Wednesday, 27 June 2012

جب سے اندر سے بکے اخبار میرے شہر کے

 جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسفؑ یہاں

مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے 

لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں

چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے

جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں

دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے

کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سُو

اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے

چُوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے

کر چکے ایکا سبھی زردار، میرے شہر کے

مکر کیا کیا لوریاں ماجدؔ انہیں دینے لگا

لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے


ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment