Tuesday 26 June 2012

اگر تھی ہم سے شکایت تو برملا کرتے

اگر تھی ہم سے شکایت تو برملا کرتے
 مگر نہ چھوڑ کے جانے کا فیصلہ کرتے
 ہمیں قبول تھا یہ بھی، بھلے جفا کرتے
 کیا تھا کب یہ تقاضا کہ بس وفا کرتے
 ستم ہزار نئے، درد ہی سوا کرتے
 حیات اپنی تھی مجرم اگر گلہ کرتے
 بچھڑ کے تم سے قیامت گزر گئی دل پر
 جو اب بھی اشک نہ بہتے تو اور کیا کرتے
 مرے لیے بھی کہیں ہاتھ تو اٹھے ہوتے
 دعا اگر نہ تھی ممکن، تو بد دعا کرتے
 یہ تیرگی تو ہمیں کب کی ڈس چکی ہوتی
 جو دل جلا کے نہ یوں ہم اگر ضیا کرتے
 تھا اور کون، جہاں بھر میں آشنا اپنا
 تجھے بھی یاد نہ کرتے، تو اور کیا کرتے
 یہ آرزو بھی عجب وقتِ مرگ تھی دل میں
 تمہی نے زخم دیئے تھے، تمہی دوا کرتے گئے
 وہ لوگ کہاں، زینؔ جو خوشی کی طرح
 غموں میں ساتھ نبھانے کا حوصلہ کرتے

 اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment