طلوعِ مہر بھی ہو، دہر میں سحر بھی نہ ہو
فروغِ تیرگی دنیا میں اس قدر بھی نہ ہو
ملی ہے زیست تو پھر غم بھی جھیلنے ہوں گے
یہ کیسے ہو کہ سمندر بھی ہو بھنور بھی نہ ہو
اگر ہے رشتۂ الفت تو کیسے ممکن ہے
جو حال دل کا اِدھر ہے، وہی اُدھر بھی نہ ہو
ہوائیں شور مچائیں، بگولے رقص کریں
مثالِ دشت جہاں میں کسی کا گھر بھی نہ ہو
بجھا دیئے ہیں دِیے اس نے بے قصور کئی
’’ہوائے تند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو‘‘
خدا وہ دن نہ دِکھائے کہ میرا ہمراہی
سفر بھی ساتھ کرے اور ہمسفر بھی نہ ہو
روا میانہ روی ہے تو زندگی بھی فصیحؔ
طویل تر بھی نہ ہو اور مختصر بھی نہ ہو
شاہین فصیح ربانی
No comments:
Post a Comment