Saturday 30 June 2012

نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں

 نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رَستے میں

چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رَستے میں

کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے

ہزار غنچہ و گُل ہیں صبا کے رَستے میں

خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں

ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رَستے میں

کہیں سلاسلِ تسبیح، کہیں زناّر

بچھے ہیں دام بہت مُدعا کے رَستے میں

ابھی وہ منزلِ فکر و نظر کہاں آئی ہے

آدمی ابھی جرم و سزا کے رَستے میں

ہیں آج بھی وہی دار و رسن وہی زنداں

ہر اِک نگاہِ رموز آشنا کے رَستے میں

یہ نفرتوں کی فصیلیں، جہالتوں کے حصار

نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رَستےمیں

مٹا سکے نہ کوئی سیلِ انقلاب جنہیں

وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رَستے میں

زمانہ ایک سا جالبؔ! سدا نہیں رہتا

چلیں گے ہم بھی کبھی سر اُٹھا کے رَستے میں


حبیب جالب

No comments:

Post a Comment