جمالِ یار کی مشعل اٹھا کے دیکھتے ہیں
نہ جانے کون کہاں پر ہے، جا کے دیکھتے ہیں
کسی کی راہ میں پتے بچھا رہا ہے کوئی
شجر کی اوٹ سے جھونکے ہوا کے دیکھتے ہیں
سِسک رہی ہے اگر بات لفظ کے نیچے
تو ایسا کرتے ہیں پتھر ہٹا کے دیکھتے ہیں
جو کھو گیا تھا، بہرحال ڈھونڈنا ہے اسے
نہیں چراغ، تو خیمہ جلا کے دیکھتے ہیں
انا رہے گی ہماری، مگر بھرم اس کا
اسی کے لہجے میں اس کو بُلا کر دیکھتے ہیں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment