Thursday 28 June 2012

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
 وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
 جس کی سانسوں سے مہکتے تھے دروبام ترے
 اے مکاں! بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
 اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے
 روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
 عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
 دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
 عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment