مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے دروبام ترے
اے مکاں! بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment