پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اِک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے
یاد کے زخم ہیں، وعدوں کی دھنک ہے، میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے
ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
راستہ روک ہی لیتا ہے تغیّر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے لیے
کتنی صدیوں کا لہو صفحۂ مقتل پہ رہا
ایک سچائی کو تحریر میں لانے کے لیے
ترکِ دنیا کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ شخص
آ گیا خواہشِ دنیا کو جگانے کے لیے
ایک ہی آگ کا ایندھن نہیں بجھنے پاتا
دوسری آگ ہے تیار جلانے کے لیے
اب کہیں تازہ مسافت پہ نکلتے ہیں سلیمؔ
اب تو وعدہ بھی نہیں کوئی نبھانے کے لیے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment