Saturday 30 June 2012

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر، اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں، دل والے بھی رہتے ہیں
بِیت گیا ساون کا مہینا، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment