وہ میرے دھیان سے غافل کبھی ہوئے بھی نہیں
نظر اُٹھا کے مِری سمت دیکھتے بھی نہیں
یہ قربتیں بھی ہیں طرفہ، یہ دوریاں بھی عجب
نہیں وہ پاس بھی میرے، کہیں گئے بھی نہیں
کبھی تو حال سناتے ہیں بِیتے لمحوں کا
کبھی یہی در و دیوار بولتے بھی نہیں
ابھی سے موسمِ گل رُخصتی کی دُھن میں ہے
ابھی تو پھول چمن میں نئے کھِلے بھی نہیں
اُجاڑ محفلوں جیسے اُجاڑ ہیں دن بھی
وصال رُت کے وہ رنگین رتجگے بھی نہیں
کسی سے حالِ دلِ زار کس طرح کہیے
کہ اب تو لوگ یہاں درد بانٹتے بھی نہیں
ابھی سے آئینہ، دامن جھٹک رہا ہے فصیحؔ
ابھی تو رنگ مِرے عکس میں بھرے بھی نہیں
شاہین فصیح ربانی
No comments:
Post a Comment