Thursday 28 June 2012

ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگتے ہیں

ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگتے ہیں
 ہم تو ہر مانگ ستاروں سے بھری مانگتے ہیں
 پھول تو خوب ہی لگتے ہیں جہاں چاہیں کِھلیں
 ہم تو سرحد بھی گلابوں سے لدی مانگتے ہیں
 ہم بھی کیا لوگ ہیں نفرت کے شجر بَو بَو کر
 آسمانوں سے محبت کی جَھڑی مانگتے ہیں
 ان کی رَہ تکتی ہے تاریخ بھی بے چینی سے
 سَر بلندی کو جو نیزے کی اَنی مانگتے ہیں
 غیر اڑنے کو بھی کرتے ہیں فضا تازہ تلاش
 ہم کہ رہنے کو بھی اِک اندھی گلی مانگتے ہیں
 سب کو سلطانئ جمہور کا دعویٰ ہے مگر
 اختیارات بہ اندازِ "شہی" مانگے ہیں

 محمود شام

No comments:

Post a Comment