Friday 29 June 2012

اس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی

وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
 اس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی
 اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے
 ہم نے پہلے بھی محبت میں سیاست نہیں کی
تم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
 تم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی
 دھڑکنیں سینے سے آنکھوں میں سِمٹ آئی تھیں
 وہ بھی خاموش تھا، ہم نے بھی وضاحت نہیں کی
 رات کو رات ہی اِس بار کہا ہے ہم نے
 ہم نے اِس بار بھی توہینِ عدالت نہیں کی
 گردِ آئینہ ہٹائی ہے کہ سچائی کھلے
 ورنہ تم جانتے ہو ہم نے بغاوت نہیں کی
 بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے
 رزق کے واسطے ہم نے کبھی ہِجرت نہیں کی
 آ! ذرا دیکھ لیں دنیا کو بھی، کس حال میں ہے
 کئی دن ہو گئے دشمن کی زیارت نہیں کی
 تم نے سب کچھ کیا، انسان کی عزت نہیں کی
 کیا ہوا وقت نے جو تم سے رعایت نہیں کی

 سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment