Saturday 30 June 2012

کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی

 کوئی گماں بھی نہیں، درمیاں گماں ہے یہی

اسی گماں کو بچا لوں، کہ درمیاں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر، تو سہہ لیں گے

نظر سے دُور نہ ہونا، کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں

جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

یہ ایک لمحہ، جو دریافت کر لیا میں نے

وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

تم ان میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھیرے ہیں

سنو! کہ وجۂ غمِ دل شکسگاں ہے یہی


جون ایلیا

No comments:

Post a Comment