Thursday 28 June 2012

سکوت مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں

سکوتِ مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں
 پھر اس نے ہم کو پکارا خدا کے لہجے میں
 میں تجھ کو مانگ رہا ہوں بڑی عقیدت سے
 مگر وہ درد نہیں ہے دعا کے لہجے میں
 مِرے شعور کی آواز پھر سے جاگ اٹھی
 تمہارے نام کی کرنیں سجا کے لہجے میں
 کہاں سے سیکھ لیے اہلِ درد کے انداز؟
 صدائیں دینے لگے ہو قضا کے لہجے میں
 غموں کی بھیڑ میں ہم کھو گئے ہیں اور حسنؔ
 کوئی بلاتا نہیں دلربا کے لہجے میں

 علی حسن شیرازی

No comments:

Post a Comment