Thursday 28 June 2012

کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

 کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو

ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ

منزل سے وہ دور تھا اور ہم بھی دور تھے

ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہنما کے ساتھ

رقصِ صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے

اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ

اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں

فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آوازِ پا کے ساتھ

ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند

پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ


کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment