یوں تو کہنے کو سبھی اپنے تئیں زندہ ہیں
زندہ رہنے کی طرح لوگ نہیں زندہ ہیں
جانے کس معرکۂ صبر میں کام آ جائیں
لشکری مارے گئے، ایک ہمِیں زندہ ہیں
نہ انہیں تیری خبر ہے، نہ تجھے ان کا پتا
ایک دیوارِ شکستہ ہے پسِ وہم و گماں
اب نہ وہ شہر سلامت، نہ مکیں زندہ ہیں
حالتِ جبر موافق بھی تو آ سکتی ہے
آسماں دیکھ، تِرے خاک نشیں زندہ ہیں
منتقل ہوتی ہے سچائی بہرحال سلیمؔ
جو یہاں مارے گئے اور کہیں زندہ ہیں
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment