Thursday 28 June 2012

رویے اور فقرے ان کے پہلو دار ہوتے ہیں

رویے اور فقرے ان کے پہلو دار ہوتے ہیں
 مگر میں کیا کروں یہ میرے رشتہ دار ہوتے ہیں
 مِرے غم پر انہیں کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی
 مِری خوشیوں میں یہ دیگوں کے چوکیدار ہوتے ہیں
 دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس بے درد ساعت میں
 دلیلیں، منطقیں اور فلسفے بے کار ہوتے ہیں
 جنہیں صبر و رضا کی ہر گھڑی تلقین ہوتی ہے
 وہی مظلوم ہر تکلیف سے دو چار ہوتے ہیں
 بہت قابو ہے اپنے دل پہ لیکن کیا کیا جائے
 جب آنکھیں خوبصورت ہوں تو ہم لاچار ہوتے ہیں
 غزل کے شعر خاصا وقت لیتے ہیں سنورنے میں
 یہ نخرے باز بچے دیر سے تیار ہوتے ہیں
 ادھر کا رخ نہیں کرتا کوئی آسودہ دل ساجدؔ
 جہاں بیٹھے ہوئے ہم نوحہ گر دو چار ہوتے ہیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment