Tuesday 26 June 2012

اسے پکارو

اسے پکارو
 *
 اسے پکارو، جو نیند موسم میں سوئے چہرے جگا گیا تھا
 وہ جس کی سانسیں طویل راتوں کی ہمسفر تھیں
 اسے پکارو، کہ پھر سے آنکھوں کو خواب سانپوں نے ڈس لیا ہے
 بدن کے گنبد میں خواہشوں کا لہو کبوتر پھڑک رہا ہے
 نگاہیں اپنے پھٹے دوپٹے کے زرد پلّو میں زہر باندھے
 رگوں میں کھوئے ہوئے مناظر کی جستجو میں بھٹک رہی ہیں
 اسے پکارو، جو ذات کشتی کا بادباں تھا
وجودِ ساحل پہ جس کے ہاتھوں کی خوشبوئیں تھیں
 اسے پکارو، کہ کشتِ جاں پہ عذاب بادل برس رہا ہے
 زبانِ تختی پہ ذائقوں کے قلم نے پھر سے 
کسیلی کڑوی رُتوں کا قانون لکھ دیا ہے
سماعتوں میں حروفِ جنگل جھلس رہا ہے
 اُداس جذبوں کی کوٹھڑی میں اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا ہے
 اسے پکارو، کہ سانس خیمہ اکھڑ رہا ہے 
بدنِ حرم سے ستونِ چہرہ بچھڑ رہا ہے
 اسے پکارو، جو نیند موسم میں سوئے چہرے جگا گیا تھا
 * 
رفیق سندیلوی

No comments:

Post a Comment