Tuesday 26 June 2012

تمہارے وصل کے جلتے اگر دیے ہوتے

تمہارے وصل کے جلتے اگر دِیے ہوتے
 غم و الم کے نہ ایسے تو سلسلے ہوتے
 یہ آرزو کے شگوفے، یہ چاہتوں کے گلاب
 تِری نظر میں سماتے تو کِھل گئے ہوتے
 کسی کے حرفِ دعا نے بچا لیا ورنہ
 رہِ حیات میں ہم تو بھٹک گئے ہوتے
 جدائی اپنا مقدر نہ ہو گئی ہوتی
’’ہمارے بس میں اگر اپنے فیصلے ہوتے‘‘
فریبِ دشتِ تمنّا میں آ گئے شاید
 وگرنہ اتنے بھی مشکل نہ راستے ہوتے
 تھی آرزو کہ وفاؤں کے دیس میں جاناں
 ہر اِک زباں پہ ہمارے ہی تذکرے ہوتے
 چمن میں زینؔ سناتی خوشی کے گیت صبا
 اگر گلوں سے ہمارے مکالمے ہوتے 

 اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment