Saturday, 30 June 2012

درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے

درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
 یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے
 دل میں ڈوبا ہوا جو نشتر ہے
 میرے دل کی زباں نہ ہو جائے
 دل کو لے لیجیے جو لینا ہے
 پھر یہ سودا گراں نہ ہو جائے

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر، اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں، دل والے بھی رہتے ہیں
بِیت گیا ساون کا مہینا، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

ہم نے سنا تھا صحن چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

 ہم نے سنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

ہم بھی گئے تھے جی بہلانے، اشک بہا کر آئے ہیں

پھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے

ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں

ایک سلگتی یاد، چمکتا درد، فروزاں تنہائی

پوچھو نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں

نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں

 نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رَستے میں

چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رَستے میں

کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے

ہزار غنچہ و گُل ہیں صبا کے رَستے میں

خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں

ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رَستے میں

گماں کی اک پریشاں منظری ہے

 گماں کی اِک پریشاں منظری ہے

 بس اِک دیوار ہے اور بے دَری ہے

 اگرچہ زہر ہے دُنیا کی ہر بات

 میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے

 تو اے بادِ خزاں! اس گل سے کہیو

 کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے

جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے

 جب ہم کہیں نہ ہوں گے، تب شہر بھر میں ہوں گے

 پہنچے گی جو نہ اس تک، ہم اُس خبر میں ہوں گے

 تھک کر گریں گے جس دَم، بانہوں میں تیری آ کر

 اُس دَم بھی کون جانے، ہم کس سفر میں ہوں گے

 اے جانِ! عہد و پیماں، ہم گھر بسائیں گے، ہاں

 تُو اپنے گھر میں ہو گا، ہم اپنے گھر میں ہوں گے

طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں

 طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں

 سودا بھی ایک وہم ہے اور سَر بھی کچھ نہیں

 میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا، یعنی میں

 لے دیکھ لے میاں! مِرے اندر بھی کچھ نہیں

 بس اِک غبارِ وہم ہے یک کوچہ گرد کا

 دیوارِ بُود کچھ نہیں اور دَر بھی کچھ نہیں

سرِ صحرا حباب بیچے ہیں

 سرِ صحرا، حباب بیچے ہیں

 لبِ دریا، سراب بیچے ہیں

 اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے 

اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

 خود سوال ان لبوں سے کر کے میاں

 خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی

 کوئی گماں بھی نہیں، درمیاں گماں ہے یہی

اسی گماں کو بچا لوں، کہ درمیاں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر، تو سہہ لیں گے

نظر سے دُور نہ ہونا، کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں

جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے

 ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے

کس نے عذابِ جاں سہا، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ، دَم بہ دَم، آن بہ آن، رَم بہ رَم

میں بھی گزشتگاں میں ہوں، تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدمؑ و ذاتِ کبریا کَرب میں ہیں جُدا جُدا

کیا کہوں ان کا ماجرا، جو بھی ہے امتحاں میں ہے

Friday, 29 June 2012

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

میں خیال ہوں کِسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مِرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کِسی کے دستِ طلب میں ہوں نہ کسی کے حرفِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کِسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
جو وہ لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راہ میں یہ خبر ملی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

یوں تو کہنے کو سبھی اپنے تئیں زندہ ہیں

یوں تو کہنے کو سبھی اپنے تئیں زندہ ہیں
 زندہ رہنے کی طرح لوگ نہیں زندہ ہیں
 جانے کس معرکۂ صبر میں کام آ جائیں
 لشکری مارے گئے، ایک ہمِیں زندہ ہیں
 نہ انہیں تیری خبر ہے، نہ تجھے ان کا پتا
 کس خرابے میں تِرے گوشہ نشیں زندہ ہیں

کیا بتائیں فصل بے خوابی یہاں بوتا ہے کون

کیا بتائیں، فصلِ بے خوابی یہاں بوتا ہے کون
 جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر سوتا ہے کون
 تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے
 پھر پسِ‌ دیوارِ زِنداں رات بھر روتا ہے کون
 بس تِری بیچارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی
 ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون

پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے

پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
 اِک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے
 یاد کے زخم ہیں، وعدوں کی دھنک ہے، میں ہوں
 یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے
 ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
 خود پہ ظاہر نہ ہوئے، تجھ کو چھپانے کے لیے

اس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی

وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
 اس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی
 اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے
 ہم نے پہلے بھی محبت میں سیاست نہیں کی
تم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
 تم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی

Thursday, 28 June 2012

کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

 کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو

ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ

منزل سے وہ دور تھا اور ہم بھی دور تھے

ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہنما کے ساتھ

ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگتے ہیں

ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگتے ہیں
 ہم تو ہر مانگ ستاروں سے بھری مانگتے ہیں
 پھول تو خوب ہی لگتے ہیں جہاں چاہیں کِھلیں
 ہم تو سرحد بھی گلابوں سے لدی مانگتے ہیں
 ہم بھی کیا لوگ ہیں نفرت کے شجر بَو بَو کر
 آسمانوں سے محبت کی جَھڑی مانگتے ہیں

جمال یار کی مشعل اٹھا کے دیکھتے ہیں

 جمالِ یار کی مشعل اٹھا کے دیکھتے ہیں

نہ جانے کون کہاں پر ہے، جا کے دیکھتے ہیں

کسی کی راہ میں پتے بچھا رہا ہے کوئی

شجر کی اوٹ سے جھونکے ہوا کے دیکھتے ہیں

سِسک رہی ہے اگر بات لفظ کے نیچے

تو ایسا کرتے ہیں پتھر ہٹا کے دیکھتے ہیں

رویے اور فقرے ان کے پہلو دار ہوتے ہیں

رویے اور فقرے ان کے پہلو دار ہوتے ہیں
 مگر میں کیا کروں یہ میرے رشتہ دار ہوتے ہیں
 مِرے غم پر انہیں کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی
 مِری خوشیوں میں یہ دیگوں کے چوکیدار ہوتے ہیں
 دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس بے درد ساعت میں
 دلیلیں، منطقیں اور فلسفے بے کار ہوتے ہیں

انوکھی مات

 انوکھی مات


سُنو جاناں

محبت کے سفر میں ایسا بھی اِک موڑ آئے گا

جدائی گھات میں ہو گی

تو آگے بڑھ کے اُس کے ہاتھ، اپنا ہاتھ دے دینا

تم اُس کو مات دے دینا 

بیاکل روگ کیسا تھا

 بیاکُل روگ


بیاکل روگ کیسا تھا ؟

انوکھا جوگ جیسا تھا؟

نہیں پل بھر رہا قائم

وہ اِک سنجوگ کیسا تھا؟

سمندر میں کسی تنہا جزیرے کی طرح شاید

ادھورے خواب کی مانند

یونہی آتی نہیں ہوا مجھ میں

 یونہی آتی نہیں ہوا مجھ میں

ابھی روشن ہے اک دِیا مجھ میں

وہ مجھے دیکھ کر خموش رہا

اور اِک شور مچ گیا مجھ میں

دونوں آدمؑ کے منتقم بیٹے

اور ہوا ان کا سامنا مجھ میں

اک بار جو بچھڑے، وہ دوبارہ نہیں ملتا

 اک بار جو بچھڑے، وہ دوبارہ نہیں ملتا

مل جائے کوئی شخص تو سارا نہیں ملتا

اس کی بھی نکل آتی ہے اظہار کی صورت

جس شخص کو لفظوں کا سہارا نہیں ملتا

پھر ڈوبنا، یہ بات بہت سوچ لو پہلے

ہر لاش کو دریا کا کنارا نہیں ملتا

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
 وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
 جس کی سانسوں سے مہکتے تھے دروبام ترے
 اے مکاں! بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
 اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے

سکوت مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں

سکوتِ مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں
 پھر اس نے ہم کو پکارا خدا کے لہجے میں
 میں تجھ کو مانگ رہا ہوں بڑی عقیدت سے
 مگر وہ درد نہیں ہے دعا کے لہجے میں
 مِرے شعور کی آواز پھر سے جاگ اٹھی
 تمہارے نام کی کرنیں سجا کے لہجے میں

کل تمہیں کوئی مصیبت بھی تو پڑ سکتی ہے

کل تمہیں کوئی مصیبت بھی تو پڑ سکتی ہے
 ہم فقیروں کی ضرورت بھی تو پڑ سکتی ہے
 اتنی عُجلت میں بچھڑنے کا ارادہ نہ کرو
 پھر ملاقات میں مدت بھی تو پڑ سکتی ہے
 آدمی زاد ہوں مجھ کو نہ فرشتہ سمجھو
 لب کشا ہونے کی ہمت بھی تو پڑ سکتی ہے

اسی لیے مرا سایہ مجھے گوارا نہیں

 اِسی لیے مرا سایہ مجھے گوارا نہیں

یہ میرا دوست ہے لیکن مرا سہارا نہیں

یہ مہر و ماہ بھی آخر کو ڈوب جاتے ہیں

ہمارے ساتھ کسی کا یہاں گذارا نہیں

ہر ایک لفظ نہیں تیرے نام میں شامل

ہر ایک لفظ محبت کا استعارہ نہیں

کسی نقش جسم کو راہ دے مرے آئینے

کسی نقشِ جسم کو راہ دے مِرے آئینے
 کبھی خود کو اذنِ گناہ دے مرے آئینے
 میں زنگارِ درد میں عمر اپنی گزار دوں
 مجھے سسکیاں، مجھے آہ دے مرے آیئنے
 کہاں قتلِ عکس روا ہوا، کہاں خوں بہا
 کوئی چشم دید گواہ دے مرے آئینے

Wednesday, 27 June 2012

جب سے اندر سے بکے اخبار میرے شہر کے

 جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسفؑ یہاں

مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے 

لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں

چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے

برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

برا، برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
 ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے
 تم اپنے دیس کی سوغات ہو ہمارے لیے
 کہ حسن تحفۂ آب و ہوا بھی ہوتا ہے
 تمہارے شہر میں ہے جی لگا ہوا ورنہ
 مسافروں کے لیے راستہ بھی ہوتا ہے

سزا جاؤ نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو

سزا

 جاؤ
 نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو
 ان کی آنکھیں، دوزخ کے دروازے ہیں
 اور تہ خانوں میں جلتی اگ سے
 ان کے دِلوں کی دیواریں کالی ہیں
 ان چہروں کو دیکھو جن کے دانت

زندگی سے ڈرتے ہو؟

 زندگی سے ڈرتے ہو؟


 زندگی سے ڈرتے ہو؟

 زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں

 آدمی سے ڈرتے ہو؟

 آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں

 آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے

ایک SMS

 SMS ایک


 جس دن تجھ سے بات نہیں ہوتی

 یوں لگتا ہے دن نہیں چڑھتا

 یوں لگتا ہے رات نہیں ہوتی

 ’’ابھی تو رات باقی ہے‘‘

ابھی تارے چمکتے ہیں

وعدہ

 وعدہ


 مرا وعدہ یہ ہے تم سے

 تمہیں اتنا میں چاہوں گا

 کہ دنیا میں کہیں پر بھی

 محبت کے حوالے سے

کبھی جو بات نکلے گی

 ہمارا نام آئے گا

بے بسی پر دو مختصر نظمیں

 بے بسی


 کس قدر بے بسی تھی لہجے میں

 تُو نے جب مجھ سے کہا تھا اِک دن

 ’’میں تمہیں سوچتی کیوں رہتی ہوں؟‘‘


 عاطف سعید


*


 بے بسی پر ایک اور نظم


 عجیب سی بے بسی ہے یہ

 تمہیں کہہ بھی نہیں سکتا

 مجھے تم سے محبت ہے


 عاطف سعید

یہی ہوا ناں

یہی ہوا ناں

 یہی ہوا ناں
 کہ تم نے مجھ کو بھلا دیا ہے
 جو نقشِ اُلفت تمہارے دل پہ کھدا ہوا تھا
 اُسے کھرچ کے مِٹا دیا ہے
 مجھے خبر ہے

 عاطف سعید

سیلیبریشن (Celebration)

 سیلیبریشن (Celebration)


 کتنی مدت بعد تمہاری یاد آئی ہے

 یوں لگتا ہے جیسے دل یہ رک جائے گا

 یوں لگتا ہے جیسے آنکھیں

 اپنے سارے آنسو رو کر

بالکل بنجر ہو جائیں گی

محبت کچھ نہیں ہوتی

 محبت کچھ نہیں ہوتی


 مجھے اکثر یہ کہتی تھی، محبت کچھ نہیں ہوتی

 ہجر کا خوف بے مطلب، وصل کے خواب بے معنی

 کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے

 اسے کیوں خامشی کہیے، کہ جس میں بات رہتی ہے 

عجب پاگل سی لڑکی ہے

 عجب پاگل سی لڑکی ہے


 عجب پاگل سی لڑکی ہے

 مجھے ہر خط میں لکھتی ہے

 مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمہیں میں یاد آتی ہوں؟

 مِری باتیں ستاتی ہیں؟

 مِری نیندیں جگاتی ہیں؟

 مِری آنکھیں رُلاتی ہیں؟

Tuesday, 26 June 2012

گزارش

 گزارش


 سنو!

اتنی گزارش ہے

 کہ جب یہ نام تیرا، نام میرا جڑ نہیں سکتا

 تو اپنے نام کے سنگ نام جوڑا مت کرو کوئی


 عاطف سعید

ماں کی ممتا چھاؤں گھنیری ٹھاٹھیں مارتی رحمت

 ماں کی ممتا


 ماں کی ممتا، چھاؤں گھنیری، ٹھاٹھیں مارتی رحمت

 ماں اک ایسی ہستی جس کے پاؤں تلے ہے جنت

 ماں کی نظر میں چمکے ہر دم چاہت کا اک نور

 خوش قسمت انسان وہی ہے ملی یہ جس کو راحت

 ماں کی دعا سے ٹل جائے ہر ایک بلائے جان

 ہاتھ دعا کو اٹھ جائیں تو مٹ جائے ہر وحشت

اگر تھی ہم سے شکایت تو برملا کرتے

اگر تھی ہم سے شکایت تو برملا کرتے
 مگر نہ چھوڑ کے جانے کا فیصلہ کرتے
 ہمیں قبول تھا یہ بھی، بھلے جفا کرتے
 کیا تھا کب یہ تقاضا کہ بس وفا کرتے
 ستم ہزار نئے، درد ہی سوا کرتے
 حیات اپنی تھی مجرم اگر گلہ کرتے

تمہارے وصل کے جلتے اگر دیے ہوتے

تمہارے وصل کے جلتے اگر دِیے ہوتے
 غم و الم کے نہ ایسے تو سلسلے ہوتے
 یہ آرزو کے شگوفے، یہ چاہتوں کے گلاب
 تِری نظر میں سماتے تو کِھل گئے ہوتے
 کسی کے حرفِ دعا نے بچا لیا ورنہ
 رہِ حیات میں ہم تو بھٹک گئے ہوتے

طلوعِ مہر بھی ہو دہر میں سحر بھی نہ ہو

 طلوعِ مہر بھی ہو، دہر میں سحر بھی نہ ہو

 فروغِ تیرگی دنیا میں اس قدر بھی نہ ہو

 ملی ہے زیست تو پھر غم بھی جھیلنے ہوں گے

 یہ کیسے ہو کہ سمندر بھی ہو بھنور بھی نہ ہو

 اگر ہے رشتۂ الفت تو کیسے ممکن ہے

 جو حال دل کا اِدھر ہے، وہی اُدھر بھی نہ ہو

وہ میرے دھیان سے غافل کبھی ہوئے بھی نہیں

 وہ میرے دھیان سے غافل کبھی ہوئے بھی نہیں

 نظر اُٹھا کے مِری سمت دیکھتے بھی نہیں

 یہ قربتیں بھی ہیں طرفہ، یہ دوریاں بھی عجب

 نہیں وہ پاس بھی میرے، کہیں گئے بھی نہیں

 کبھی تو حال سناتے ہیں بِیتے لمحوں کا

 کبھی یہی در و دیوار بولتے بھی نہیں

ہے چھوڑ کے جانا تو مجھے چھوڑ مکمل

 ہے چھوڑ کے جانا تو مجھے چھوڑ مکمل

دے ساتھ کسی کا مِرا دل توڑ مکمل

ہے ساتھ نبھانا تو مِرا ساتھ دے ایسے

دل اپنا مِرے قلب سے دے جوڑ مکمل

افسانے کے کردار تو سب ہی ہیں پرانے

دے اپنی کہانی کو نیا موڑ مکمل

ماتھوں پہ سینگ

ماتھوں پہ سینگ
 *
 وہ طلسم تھا جو تمام بستی پہ قہر تھا
 کوئی زہر تھا جو رگوں میں سب کی اُتر گیا
تو بکھر گیا وہ جو بوریوں میں اناج تھا
کوئی ڈاکو لوٹ کے لے گیا، جو دلہن کا قیمتی داج تھا
 وہ سماج تھا کہ سبھی کے دل میں یتیم ہونے کا خوف تھا

ہونے کا خدشہ

ہونے کا خدشہ
 *
 ڈرو کہ سب خاکروب ہاتھوں میں گرد لے کر
 گلاب ہاتھوں، بہار چہروں کو ڈھونڈتے ہیں
 ڈرو کہ مکتب کے راستے پر
 جلوسِ ناخواندگاں، کتابوں کو برچھیوں میں پِرو رہا ہے
تمام بچوں کو خندقوں میں چھپا کے مکتب کے سب معلّم
 نئی کتابوں میں اقتباسِ محافظت کو تلاش کرنے میں منہمک ہیں

اسے پکارو

اسے پکارو
 *
 اسے پکارو، جو نیند موسم میں سوئے چہرے جگا گیا تھا
 وہ جس کی سانسیں طویل راتوں کی ہمسفر تھیں
 اسے پکارو، کہ پھر سے آنکھوں کو خواب سانپوں نے ڈس لیا ہے
 بدن کے گنبد میں خواہشوں کا لہو کبوتر پھڑک رہا ہے
 نگاہیں اپنے پھٹے دوپٹے کے زرد پلّو میں زہر باندھے

خواب مزدور ہے

خواب مزدور ہے
 *
رات دن سر پہ بھاری تغاری لئے
 سانس کی
 بانس کی
 ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر
 اُترتا ہے
 چڑھتا ہے
 رُوپوش معمار کے حکم پر