Sunday, 3 July 2016

حالانکہ ہمیں لوٹ کے جانا بھی نہیں ہے

حالانکہ ہمیں لوٹ کے جانا بھی نہیں ہے
کشتی مگر اس بار جلانا بھی نہیں ہے
تلوار نہ چھونے کی قسم کھائی ہے لیکن
دشمن کو کلیجے سے لگانا بھی نہیں ہے
یہ دیکھ کے مقتل میں ہنسی آتی ہے مجھ کو
سچا میرے دشمن کا نشانہ بھی نہیں ہے

بڑی کڑواہٹیں ہیں اس لئے ایسا نہیں ہوتا

بڑی کڑواہٹیں ہیں اس لئے ایسا نہیں ہوتا
شکر کھاتا چلا جاتا ہوں منہ میٹھا نہیں ہوتا
دوا کی طرح کھاتے جائیے گالی بزرگوں کی
جو اچھے پھل ہیں، ان کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا
ہمارے شہر میں ایسے مناظر روز ملتے ہیں
کہ سب ہوتا ہے چہرے پر مگر چہرہ نہیں ہوتا

جو حکم دیتا ہے وہ التجا بھی کرتا ہے

جو حکم دیتا ہے وہ التجا بھی کرتا ہے
یہ آسمان کہیں پر جھکا بھی کرتا ہے
میں اپنی ہار پہ نادم ہوں اس یقین کے ساتھ
کہ اپنے گھر کی حفاظت خدا بھی کرتا ہے
تُو بے وفا ہے تو اک بری خبر سن لے
کہ انتظار میرا دوسرا بھی کرتا ہے

بس اتنی بات پر اس نے ہمیں بلوائی لکھا ہے

بس اتنی بات پر اس نے ہمیں بلوائی لکھا ہے
ہمارے گھر کے اک برتن پہ آئی ایس آئی لکھا ہے
یہ ممکن ہی نہیں چھیڑوں نہ تجھ کو راستہ چلتے
تجھے اے موت میں نے عمر بھر بھوجائی لکھا ہے
میاں! مسند نشینی مفت میں کب ہاتھ آتی ہے
دہی کو دودھ لکھا، دودھ کو بالائی لکھا ہے

جب بچہ بچہ زخمی ہو

جب بچہ بچہ زخمی ہو
دھرتی کا سینہ چھلنی ہو
ملزم ہوں کٹہروں میں بہنیں
اور کھیتوں میں بارود اگے
ہر سمت اندھیرے حاکم ہوں
سورج کے منہ پر جالے ہوں

اپنا پنجرہ سجا لیا میں نے

اپنا پنجرہ سجا لیا میں نے
جشن ایسے منا لیا میں نے
ایک گاڑی جلا کےآتے ہی
ایک پرچم اٹھا لیا میں نے
ایک بھائی کو مار ڈالا ہے
ایک بھائی بنا لیا میں نے

عشق ہے مشغلہ زمانوں سے

عشق ہے مشغلہ زمانوں سے
دار سے واسطہ زمانوں سے
تاک میں مہربان مدت سے
گھات کا سامنا زمانوں سے
ہاتھ میں اِک دِیا سنبھالے ہوں
آنکھ میں رتجگہ زمانوں سے

بدن کا بوجھ لیے روح کا عذاب لیے

بدن کا بوجھ لیے، روح کا عذاب لیے
کدھر کو جاؤں طبیعت کا اضطراب لیے
جلا ہی دے نہ مجھے یہ جنم جنم کی پیاس
ہر ایک راہ کھڑی ہے یہاں سراب لیے
یہی امید کہ شاید ہو کوئی چشم براہ
چراغ دل میں لیے، ہات میں گلاب لیے

سنتے ہیں زندگی تھی کبھی شوخ و شنگ بھی

سنتے ہیں زندگی تھی کبھی شوخ و شنگ بھی
اب ایک واہمہ ہے یہاں روپ رنگ بھی
خود کو ذرا بچا کے نکلیے کہ اِن دنوں
پھولوں کے ساتھ ساتھ برستے ہیں سنگ بھی
یارو چلے ہو جلتی ہوئی دھوپ میں کہاں
دیکھو جھلس گیا ہے کواڑوں کا رنگ بھی

چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے

چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے
جہاں سکون کی صورت کوئی نظر آئے
گھٹا برس بھی گئی اور پیاس بجھ نہ سکی
چلو بہت ہے یہی زخم کچھ نکھر آئے
بکھر گیا کوئی احساس تو سمٹ نہ سکا
جو خواب روٹھ گئے پھر نہ لوٹ کر آئے

کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے

کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے
دیکھا کیے اور چپ رہے حالات کے ڈر سے
ہم راہ کی دیوار گرا آئے تھے، لیکن
جب دھوپ چڑھی سایۂ دیوار کو ترسے
یہ شعلۂ احساس فروزاں رکھو یارو
اوجھل ہے وہ خورشید ابھی حدِ نظر سے

حسن باقی شباب باقی ہے

حسن باقی، شباب باقی ہے 
عاشقی کا نصاب باقی ہے 
روز جیتا ہوں، روز مرتا ہوں 
زندگی کا حساب باقی ہے 
تھک گئے پاؤں، پڑ گئے چھالے 
حسرتوں کا سراب باقی ہے 

قصہ غم سنا کے دیکھ لیا

قصۂ غم سنا کے دیکھ لیا
جان اپنی جلا کے دیکھ لیا
خاک میں مل ملا کے دیکھ لیا
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
دل پہ جو اختیار تھا،۔ نہ رہا
خوب سمجھا بجھا کے دیکھ لیا

نظر جب سے وہ مہرباں ہو گئی ہے

نظر جب سے وہ مہرباں ہو گئی ہے
زمیں عشق کی آسماں ہو گئی ہے
تماشا یہ عمرِرواں ہو گئی ہے
یقیں سے گزر کر گماں ہو گئی ہے
مری خاکساری دلیلِ خودی تھی
یہی بے نشانی، نشاں ہو گئی ہے

شام سے حال عجب تا بہ سحر ہم نے کیا

شام سے حال عجب تا بہ سحر ہم نے کِیا 
کس خرابی سے شبِ غم کو بسر ہم نے کِیا 
پونچھ کر بادہ کشی میں لبِ گلگوں ان کی
پنبۂ شیشۂ مے کو گلِ تر ہم نے کِیا 
مہر کی طرح تھرا گئے گلہائے چمن
صبحدم نالہ جو اے مرغِ سحر ہم نے کِیا 

عازم دشت جنوں ہو کے میں گھر سے اٹھا

عازمِ دشتِ جنوں ہو کے میں گھر سے اٹھا 
پھر بہار آئی، قدم پھر نئے سر سے اٹھا   
عمر بھر دل نہ مِرا یار کے گھر سے اٹھا 
بیٹھا دیوار کے نیچے جو میں در سے اٹھا   
گیسو ان کے جو رخِ رشکِ قمر سے اٹھا
پردۂ ظلمتِ شب روئے سحر سے اٹھا 

خدا کا قہر بتوں کا عتاب رہتا ہے

خدا کا قہر، بتوں کا عتاب رہتا ہے
اس ایک جان پہ کیا کیا عذاب رہتا ہے
وہ آفتاب جو مستِ شراب رہتا ہے
فلک پہ طائرِ سدریٰ کباب رہتا ہے
وصال میں بھی یہ ان کو حجاب
کہ ہاتھ منہ پہ بجائے نقاب رہتا ہے

Saturday, 2 July 2016

دیکھئے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں

دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں
دشت میں ناقۂ لیلیٰ کا گزر ہے کہ نہیں
وا اگر چشم نہ ہو اس کو نہ کہنا پی اشک
یہ خدا جانے، صدف بیچ گہر ہے کہ نہیں
ایک نے مجھ کو تِرے در کے اُپر دیکھ کہا
غیر اس در کے تجھے اور بھی در ہے کہ نہیں

حیف دل میں ترے وفا نہ ہوئی

حیف دل میں تِرے وفا نہ ہوئی
کیوں تِری چشم میں حیا نہ ہوئی
یار نے نامہ بر سے خط نہ لیا
میری خاطر عزیز! کیا نہ ہوئی
رہ گیا دور تیرے کوچہ سے
خاک بھی میری پیش پا نہ ہوئی

ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا

ہرگز مِرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا
وہ صبح کو ہے یار مِرا، شام کسی کا
اس ہستئ موہوم میں ہرگز نہ کھلی چشم
معلوم کسی کو نہیں انجام کسی کا
اتنا کوئی کہہ دے کہ مِرا یار کہاں ہے
باللہ میں لینے کا نہیں نام کسی کا

اٹھ چکا دل مرا زمانے سے

اٹھ چکا دل مِرا زمانے سے
اڑ گیا مرغ آشیانے سے
دیکھ کر دل کو مڑ گئی مژگاں
تیر خالی پڑا نشانے سے
چشم کو نقشِ پا کروں کیونکر
دور ہو خاک آستانے سے

Friday, 1 July 2016

جس نے کہ مے عشق سے اک جام نہ پایا

جس نے کہ مۓ عشق سے اِک جام نہ پایا
اس دوڑ میں اس نے تو کبھی نام نہ پایا
ہر ایک ہدایت کی نہایت ہے و لیکن
اس عشق کے آغاز کا انجام نہ پایا
کیا شکوہ کریں کنجِ قفس کا دلِ مضطر
ہم نے تو چمن میں بھی ٹک آرام نہ پایا

پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا

پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا
تحفہ یہ نیا میرے ستم گار نے بھیجا
تا ہو ترے اطراف میں پھر پھر کے معطر
نکہت کو تِرے یاں گل و گلزار نے بھیجا
ناچار چھپا کبک دری شرم سے جا کر
کہسار میں اس کو تِری رفتار نے بھیجا

دیکھیں گے پھر ان آنکھوں سے ہم روئے یار بھی

دیکھیں  گے پھر ان آنکھوں سے ہم روئے یار بھی
ہووے گا یہ تمام کبھی انتظار بھی
آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی
دشمن تو تھے ہی پر تِری اس دوستی میں اب
بے زار ہم سے ہو گئے ہیں دوستدار بھی

اشارے کیا نگہ ناز دلربا کے چلے

اشارے کیا نگہِ نازِ دل ربا کے چلے
جب انکے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
پکار کہتی تھی حسرت سے لاش عاشق کی
صنم کہاں ہمیں تم خاک میں ملا کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے

شہید عشق ہوئے قیس نامور كی طرح

شہیدِ عشق ہوئے قیس نامور كی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے كئے ہنر كی طرح
كچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر كی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دو پہر كی طرح
تجھ ہی كو دیكھوں گا جب تک ہیں برقرار آنكھیں
میری نظر نہ پھرے گی تیری نظر كی طرح

مثال بدر جو حاصل ہوا کمال مجھے

مثالِ بدر جو حاصل ہوا کمال مجھے
گھٹا گھٹا کے فلک نے کِیا ہلال مجھے
برنگِ سبزۂ بے گانہ باغِ دہر میں تھا
تیرے سحابِ کرم نے کِیا نہال مجھے
یہ الفتیں بھی ہیں دنیا میں یادگار اے مرگ
میرا خیال تجھے،۔۔۔ اور تیرا خیال مجھے

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے
یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے
لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے
یوں یاد تِری شب بھر سینے میں سلگتی ہے
یوں پیار نہیں چھپتا، پلکوں کے جھکانے سے
آنکھوں کے لفافوں میں تحریر چمکتی ہے

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے
پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں‌ سوتے میں‌ ہماری 
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے 
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں

دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں
ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفرکرتے ہیں
جب سراپے پہ کہیں اس کی نظر کرتے ہیں
میر صاحب کی طرح عمر بسر کرتے ہیں
بندش ہم کو کسی حال گوارہ ہی نہیں
ہم تو وہ لوگ ہیں دیوار کو در کرتے ہیں