جس نے کہ مۓ عشق سے اِک جام نہ پایا
اس دوڑ میں اس نے تو کبھی نام نہ پایا
ہر ایک ہدایت کی نہایت ہے و لیکن
اس عشق کے آغاز کا انجام نہ پایا
کیا شکوہ کریں کنجِ قفس کا دلِ مضطر
ہم نے تو چمن میں بھی ٹک آرام نہ پایا
پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا
تحفہ یہ نیا میرے ستم گار نے بھیجا
تا ہو ترے اطراف میں پھر پھر کے معطر
نکہت کو تِرے یاں گل و گلزار نے بھیجا
ناچار چھپا کبک دری شرم سے جا کر
کہسار میں اس کو تِری رفتار نے بھیجا
دیکھیں گے پھر ان آنکھوں سے ہم روئے یار بھی
ہووے گا یہ تمام کبھی انتظار بھی
آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی
دشمن تو تھے ہی پر تِری اس دوستی میں اب
بے زار ہم سے ہو گئے ہیں دوستدار بھی