یوں اس پہ مِری عرضِ تمنّا کا اثر تھا
جیسے کوئی سورج کی تپش میں گلِ تر تھا
اٹھتی تھیں دریچوں میں ہماری بھی نگاہیں
اپنا بھی کبھی شہرِ نگاراں میں گزر تھا
ہم جس کے تغافل کی شکایت کو گئے تھے
شانوں پہ کبھی تھے تِرے بھیگے ہوئے رخسار
آنکھوں پہ کبھی میری تِرا دامنِ تر تھا
خوشبو سے معطّر ہے ابھی تک وہ گزرگاہ
صدیوں سے یہاں جیسے بہاروں کا نگر تھا
ہے ان کے سراپا کی طرح خوش قد و خوشرنگ
وہ سَرو کا پودا جو سرِ راہ گزر تھا
قطرے کی ترائی میں تھے طوفاں کے نشیمن
ذرے کے احاطے میں بگولوں کا بھنور تھا
احسان دانش
No comments:
Post a Comment