قربت نہیں تو شدتِ ہجراں ضرور ہو
جاناں سے کوئی سلسلہٴ جاں ضرور ہو
ہم ایسے وحشیوں کی تواضع کے واسطے
ہر گھر میں اک زرا سا بیاباں ضرور ہو
نوواردانِ مدرسۂ عشق کے لیے
تُو ملتفت اگر ہے تو ہر درد کی دوا
یہ کیا ضرور ہے کہ مِری جاں! ضرور ہو
جیسا بھی تیرا حال ہے اے دل! تِرے لیے
لازم نہیں کہ وہ بھی پریشاں ضرور ہو
آؤ جب اس کی بزم میں سازِ سخن لیے
مِضرابِ غم کی زد پہ رگِ جاں ضرور ہو
قربت بہت عزیز ہے اس کی، مگر فرازؔ
جی چاہتا ہے صحبتِ یاراں ضرور ہو
احمد فراز
No comments:
Post a Comment