Wednesday 29 July 2015

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر الجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی
یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اُٹھ جانے کے بعد
میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی
آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی
آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی
مجھ کو رخصت کر رہے ہیں وہ عجب انداز سے
آنکھ میں آنسو، لبوں پر یہ ہنسی دیکھی نہ تھی
کس قدر خوش ہوں میں ناصرؔ ان کو پا لینے کے بعد
ایسا لگتا ہے کبھی ایسی خوشی دیکھی نہ تھی

حکیم ناصر

No comments:

Post a Comment