سفر کی موج میں تھے، وقت کے غبار میں تھے
وہ لوگ، جو ابھی اس قریۂ بہار میں تھے
وہ ایک چہرے پہ بکھرے عجب عجب سے خیال
میں سوچتا تو وہ غم میرے اختیار میں تھے
وہ ہونٹ، جن میں تھا میٹھی سی ایک پیاس کا رس
مجھے خبر بھی نہ تھی اور اتفاق سے کل
میں اس طرف سے جو گزرا، وہ انتظار میں تھے
میں کچھ سمجھ نہ سکا، مِری زندگی کے وہ خواب
ان انکھڑیوں میں جو تیرے تھے، کس شمار میں تھے
میں دیکھتا تھا، وہ آئے بھی اور چلے بھی گئے
ابھی یہیں تھے، ابھی گردِ روزگار میں تھے
میں دیکھتا تھا، اچانک، یہ آسماں، یہ کرے
بس ایک پل کو رکے اور پھر مدار میں تھے
ہزار بھیس میں، سیار موسموں کے سفیر
تمام عمر مِری روح کے دیار میں تھے
مجید امجد
No comments:
Post a Comment