مجھ کو آتا ہے تیمّم، نہ وضُو آتا ہے
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تُو آتا ہے
یوں تو شِکوہ بھی ہمیں آئینہ رُو آتا ہے
ہونٹ سِل جاتے ہیں جب سامنے تُو آتا ہے
ہاتھ دھوئے ہوئے ہوں نِیستی و ہستی سے
شیخ کیا پوچھتا ہے مجھ سے، وضُو آتا ہے
منتیں کرتی ہے شوخی کہ منا لوں تجھ کو
جب مِرے سامنے رُوٹھا ہوا تُو آتا ہے
پوچھتے کیا ہو تمناؤں کی حالت کیا ہے
سانس کے ساتھ اب اشکوں میں لہُو آتا ہے
یار کا گھر کوئی کعبہ تو نہیں ہے شاعرؔ
ہائے کم بخت! یہیں مرنے کو تُو آتا ہے
آغا شاعر قزلباش
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تُو آتا ہے
یوں تو شِکوہ بھی ہمیں آئینہ رُو آتا ہے
ہونٹ سِل جاتے ہیں جب سامنے تُو آتا ہے
ہاتھ دھوئے ہوئے ہوں نِیستی و ہستی سے
شیخ کیا پوچھتا ہے مجھ سے، وضُو آتا ہے
منتیں کرتی ہے شوخی کہ منا لوں تجھ کو
جب مِرے سامنے رُوٹھا ہوا تُو آتا ہے
پوچھتے کیا ہو تمناؤں کی حالت کیا ہے
سانس کے ساتھ اب اشکوں میں لہُو آتا ہے
یار کا گھر کوئی کعبہ تو نہیں ہے شاعرؔ
ہائے کم بخت! یہیں مرنے کو تُو آتا ہے
آغا شاعر قزلباش
No comments:
Post a Comment