Saturday 25 July 2015

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
ایک لگی کے دو ہیں اثر، اور دونوں حسبِ مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے، رقص میں ہے پروانہ بھی
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا، اڑ کے چلا پروانہ بھی
دونوں جولاں گاہِ جنوں ہیں، بستی کیا، ویرانہ کیا
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا، دوڑ پڑا ویرانہ بھی
دورِ مسرّت آرزوؔ! اپنا، کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھوٹ پڑا پیمانہ بھی

آرزو لکھنوی

No comments:

Post a Comment