Saturday 25 July 2015

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

کِس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ کے "برسا" پانی
رو لئے پھوٹ کے، سینے میں جلن اب کیوں ہے
آگ "پگھلا" کے نکالا ہے یہ "جلتا" پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی "بہا" لے گیا "برسات" کا "پہلا" پانی
ٹکٹکی باندھے وہ پھرتے ہیں میں اس فکر میں ہوں
کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ گہرا پانی
بات کرنے میں وہ ان آنکھوں سے امرت ٹپکا
آرزوؔ! دیکھتے ہی، منہ میں بھر آیا پانی

آرزو لکھنوی

No comments:

Post a Comment