اب تبسم کا ہے یہ رنگ، دھواں ہو جیسے
آج نغمہ کا یہ عالم ہے، فغاں ہو جیسے
کچھ نہ کہنے پہ بھی سب کچھ ہے زمانے پہ عیاں
خامشی حسن و محبت کی زباں ہو جیسے
قافلہ مہر و وفا کا یہ کہاں آ پہونچا
واعظِ شہر کی باتوں پہ ہنسی آتی ہے
یہ بھی مِن جملۂ صاحب نظراں ہو جیسے
دردِ دل سخت ہے جانکاہ مگر کیا کیجیے
زندگانی کی یہی روح ِرواں ہو جیسے
دل غمِ ہجرسے مانوس ہے اتنا ماہرؔ
خواہشِ وصلِ محبت کا زیاں ہو جیسے
ماہر القادری
No comments:
Post a Comment