Thursday 30 July 2015

میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا

میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا
مگر یہ سچ ہے کہ جاناں! بہت اداس رہا
نہ بچ کے جا سکا تیرے بدن کی خوشبو سے
ہوا کا جھونکا بھی آشفتۂ حواس رہا
ملی نہ فرصتِ یک لمحہ اس کو اپنے سے
نظر شناس رہا وہ، نہ غم شناس رہا
بہت عزیز تھی مجھ کو بھی اپنی برنائی
مگر وہ دردِ تہِ جام بے سپاس رہا
مگر وہ زعم تِرے سامنے پِنپ نہ سکا
مگر یہ رنج، انا کی مِری اساس رہا
یہ التفات بھی کیا کم ہے اک زمانے میں
تُو ننگے پاؤں رہا میں بھی سبز گھاس رہا
متین روزنِ دل سے ذرا سا جھانک تو لے
وہ تُو ہی ہے جو کسی وقت اپنا داس رہا

اقبال متین

No comments:

Post a Comment