Friday 24 July 2015

جنگل کو رو چکے چلو دریا کا غم کریں

جنگل کو رو چکے، چلو دریا کا غم کریں 
لگ جائیں پھر سے کام پہ دامن کو نم کریں
یہ شرط ہی غلط ہے فقط اک چراغ کی 
کس کو بجھائیں اور کسے محترم کریں
دل میں لگا رہا ہوں نئے درد کی سبیل 
توفیق دی گئی ہے جنہیں آنکھ نم کریں
سب کچھ دکھائی دینا بھی تشویشناک ہے 
آنکھیں زیادہ ہو گئیں بینائی کم کریں
مکتب میں عاشقوں کو لیے آئے ہیں تو اب 
تختی پہ لکھ دیا ہے جو دل پر رقم کریں
سارے غزال لفظ غزل دشت میں اداس 
تیرا اشارہ ہو تو یہ آہو بھی رم کریں 

نعمان شوق

No comments:

Post a Comment