Friday 31 July 2015

ظلم کر دے نہ تیرا مائل فریاد مجھے

ظلم کر دے نہ تیرا مائلِ فریاد مجھے
اِس قدر بھی نہ ستا او ستم ایجاد! مجھے
رات پڑتی ہے تو آتا ہے کوئی یاد مجھے 
تُو نے رکھا نہ کہیں قابلِ ناشاد مجھے
جو خوشی آپ کی وہ میری خوشی بسم اللہ
آپ کرتے ہیں تو کر دیجئے برباد مجھے
پوچھتے کیا ہو میرا حالِ پریشاں مجھ سے
ایسا کھویا ہوں کہ کچھ بھی نہ رہا یاد مجھے
میں قفس ہی سے گلستاں کا نظارہ کر لوں
اتنی رخصت نہیں دیتا میرا صیّاد مجھے
رکھ سکے ہاتھ بھلا کون کسی کے منہ پر
لوگ کہتے ہیں تیرا کشتۂ بے داد مجھے
لینے دیجئے ابھی اِس دل کو اسیری کے مزے
ابھی کیجئے نہ خمِ زلف سے آزاد مجھے
بھول جاؤں میں زمانے کو تیری چاہت میں
یاد تیری رہے اللہ کرے یاد مجھے
اس کی یادوں سے نصیرؔ آج بھی دل ہے آباد
بھول کر بھی نہ کِیا جس نے یاد مجھے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment