ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے
جو ہجر میں تڑپائے، وہی رات بڑی ہے
یہ ضعف کا عالم ہے کہ تقدیر کا لکھا
بستر پہ ہوں میں یا کوئی تصویر پڑی ہے
بیتابئ دل کا ہے وہ دِلچسپ تماشا
اب تک مجھے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا
کیا جانیے کس آنکھ سے یہ آنکھ لڑی ہے
آدھی سے زیادہ شبِ غم کاٹ چکا ہوں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے
ثاقب لکھنوی
No comments:
Post a Comment