ہم ڈوبنے والے، موجوں کی توہین گوارا کیا کرتے
کشتی کا سہارا کیوں لیتے، ساحل کی تمنا کیا کرتے
ہستی کا دھوکا کیوں کھاتے، ہم خواہشِ دنیا کیا کرتے
جلوے پہ نظر رکھنے والے، پردوں کا نظارہ کیا کرتے
بجلی کی چمک، بادل کی گرج، پرزور ہوا، تاریک فضا
ہونا تھا جو کچھ ہو ہی چکا، اب دل کا ذکر ہی کیا ماہرؔ
جو چیز کسی کو دے دی تھی پھر اس کا تقاضا کیا کرتے
ماہر القادری
No comments:
Post a Comment