رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے
فصلِ گُل جو آئی ہے، شامِ غم بھی چمکے گی
ہم نے اشک بوئے تھے، ہم نے دل جلایا ہے
آؤ دام پوچھیں گے، کوئی شخص سنتے ہیں
اپنی عمر کا حاصل، بیچنے کو لایا ہے
ہم وفا کے مارے تھے بارہا لرز اٹھے
جب چھؤا کسی گُل کو تُو بھی ساتھ آیا ہے
آؤ تم کو سمجھائیں یوں نہیں لکھا کرتے
نامہ برنے خط دے کر اشکِ غم ہی پایا ہے
کل کسی نے رستے میں ہم سے خیریت پوچھی
تُو کہاں تھا ایسے میں، تُو جو یاد آیا ہے
رات گوشۂ دل میں اک کرن جو در آئی
ہم تو یہ سمجھ بیٹھے چاند بھی ہمارا ہے
تم تو میرے ہو جاتے، سب سے تم کو کیا لینا
سب کا درد میرا ہے، میرا غم تمہارا ہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے
فصلِ گُل جو آئی ہے، شامِ غم بھی چمکے گی
ہم نے اشک بوئے تھے، ہم نے دل جلایا ہے
آؤ دام پوچھیں گے، کوئی شخص سنتے ہیں
اپنی عمر کا حاصل، بیچنے کو لایا ہے
ہم وفا کے مارے تھے بارہا لرز اٹھے
جب چھؤا کسی گُل کو تُو بھی ساتھ آیا ہے
آؤ تم کو سمجھائیں یوں نہیں لکھا کرتے
نامہ برنے خط دے کر اشکِ غم ہی پایا ہے
کل کسی نے رستے میں ہم سے خیریت پوچھی
تُو کہاں تھا ایسے میں، تُو جو یاد آیا ہے
رات گوشۂ دل میں اک کرن جو در آئی
ہم تو یہ سمجھ بیٹھے چاند بھی ہمارا ہے
تم تو میرے ہو جاتے، سب سے تم کو کیا لینا
سب کا درد میرا ہے، میرا غم تمہارا ہے
اقبال متین
No comments:
Post a Comment