Thursday 30 July 2015

رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے

رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے
فصلِ گُل جو آئی ہے، شامِ غم بھی چمکے گی
ہم نے اشک بوئے تھے، ہم نے دل جلایا ہے
آؤ دام پوچھیں گے، کوئی شخص سنتے ہیں
اپنی عمر کا حاصل، بیچنے کو لایا ہے
ہم وفا کے مارے تھے بارہا لرز اٹھے
جب چھؤا کسی گُل کو تُو بھی ساتھ آیا ہے
آؤ تم کو سمجھائیں یوں نہیں لکھا کرتے
نامہ برنے خط دے کر اشکِ غم ہی پایا ہے
کل کسی نے رستے میں ہم سے خیریت پوچھی
تُو کہاں تھا ایسے میں، تُو جو یاد آیا ہے
رات گوشۂ دل میں اک کرن جو در آئی
ہم تو یہ سمجھ بیٹھے چاند بھی ہمارا ہے
تم تو میرے ہو جاتے، سب سے تم کو کیا لینا
سب کا درد میرا ہے، میرا غم تمہارا ہے 

اقبال متین

No comments:

Post a Comment