Wednesday 29 July 2015

کہاں گئے وہ سخنور جو میر محفل تھے

کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے
ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے
بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے
حرام ہے جو صراحی کو منہ لگایا ہو
یہ اور بات کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے
گزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح
وہ چند روز مری زندگی کا حاصل تھے
پڑے ہیں سایۂ گل میں جو سرخرو ہو کر
وہ جاں نثار ہی اے شمع! تیرے قاتل تھے
اب ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ناصرؔ
وہ ہمنوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment