Saturday 25 July 2015

وحشت تھی مگر چاک لبادہ بھی نہیں تھا

وحشت تھی مگر چاک لبادہ بھی نہیں تھا 
یوں زخم نمائی کا ارادہ بھی نہیں 
خلعت کے لیے قیمتِ جاں یوں بھی بہت تھی
پھر اتنا دلآویز لبادہ بھی نہیں تھا
ہم مرحبا کہتے تیرے ہر تیرِ ستم پر
سچ بات کہ دل اتنا کشادہ بھی نہیں تھا
ہم خون میں نہلائے گئے تیری گلی میں
اور تُو کہ سر بام ستادہ بھی نہیں تھا
یارو! کوئی تدبیر کرو تم کہ وہ ہم سے
ناخوش تھا مگر اتنا زیادہ بھی نہیں تھا
آخر کو تو گُل ہو گئے سورج سے مسافر
اور میں تو چراغِ سرِ جادہ بھی نہیں تھا
پاگل ہو فرازؔ! آج جو رہ دیکھ رہے ہو
جب اس سے ملاقات کا وعدہ بھی نہیں تھا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment