Friday, 31 July 2015

یہ غم کیا دل کی عادت ہے نہیں تو

یہ غم کیا دل کی عادت ہے، نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے، نہیں تو
کسی کے بِن، کسی کی یاد کے بِن
جیئے جانے کی ہمت ہے، نہیں تو
ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر، اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے، نہیں تو
کسی صورت بھی دل لگتا نہیں، ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے، نہیں تو
تیرے اس حال پر ہے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ہے، نہیں تو
ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے، نہیں تو
ہُوا جو کچھ یہ ہی مقسوم تھا کیا
یہ ہی ساری حکایت ہے، نہیں تو
اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
اماں پانے کی حسرت ہے، نہیں تو
تُو رہتا ہے خیال و خواب میں گم
تو اِس کی وجہ فرصت ہے، نہیں تو
سبب جو اِس جدائی کا بنا ہے
وہ مجھ سے خوبصورت ہے، نہیں تو

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment